ناروے میں اسلام مخالف گروپ “سیان” ہفتہ وار قرآن جلانے کا منصوبہ ترک کرکے ڈائیلاگ پر رضا مند ہوگیا

This slideshow requires JavaScript.

اوسلو (خصوصی رپورٹ)۔

ناروے میں اسلام مخالف گروپ “سیان” ہر ہفتے قرآن جلانے کے اپنے منصوبے کو معطل کرکے مسلمانوں کی ایک تنظیم “مسلم ڈائیلاگ فورم” کے ساتھ مذاکرات پر رضا مند ہوگیا ہے۔

مسلم ڈائیلاگ فورم کے روح رواں اور ممتاز نارویجن پاکستانی سیاستدان سید یوسف گیلانی کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کی ٹیم اس سے قبل “سیان” کے عہدیداران خصوصاً اس کے مرکزی لیڈر “لارس تھورسن” سے ملاقاتیں کرچکے ہیں اور اب  ان کے ساتھ چوبیس اکتوبر کو باقاعدہ مذاکرات ہوں گے۔

یوسف گیلانی کے علاوہ مسلم ڈائیلاگ فورم میں وھاب قادر اور ہاتس علم آسگلو بھی شامل ہیں اور ابتدائی بات چیت کے سلسلے میں یہ فورم مسلمان سیاسی و مذہبی زعماء سے بھی مسلسل مشاورت اور رابطے میں رہا۔

دوسری طرف اسلام مخالف تنظیم “سیان” نے اپنی پریس ریلیز میں مسلم ڈائیلاگ فورم خصوصاً سید یوسف گیلانی کی طرف سے مذاکرات شروع کرنے کے عمل کا خیرمقدم کیا ہے اور کہاکہ وہ اسی وجہ سے ھمر شہر میں فعل الحال قرآن جلانے کا اپنا پروگرام ملتوی کررہے ہیں۔

سید یوسف گیلانی جو ناروے کے شہر دریمن کے ڈپٹی میئر بھی رہ چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ سیان نے گذشتہ ہفتے بارہ ستمبر کو ناروے کے ھمر شہر میں قرآن جلانا تھا اور یہ سلسلہ ہرہفتے کے روز کسی نہ کسی نارویجن شہر میں جاری رہنا تھا لیکن ان کی ملاقاتوں کے نتیجے میں سیان نے اپنی یہ ناپسندیدہ سرگرمیاں معطل کردی ہیں اور اب آئندہ ماہ کی چوبیس تاریخ کو باقاعدہ مذاکرات کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔

جنوبی ناروے کی یونیورسٹی کے پروفیسر لارش پیٹر سولتودت بھی ان مذاکرات کے سلسلے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔

یوسف گیلانی کے بقول، ہم ناروے کے معاشرے میں خصوصاً مسلمانوں اور ناروے کی سیکولر ڈیموکریٹک سوسائٹی کے مابین پل بنانے کی کوشش کررہے ہیں اور آئندہ ماہ کے مذاکرات کے دوران بھی اس بات پر غور کیا جائے گا کہ کس طرح ناروے کی سیکولار سوسائٹی اور یہاں کے مسلمانوں کو قریب لایا جاسکتا ہے۔

سیان کی پریس ریلیز میں بھی کہاگیا ہے کہ ناروے کے معاشرے میں جہاں مختلف طبقوں کے مابین تفریق بڑھ رہی ہے، وہاں بات چیت کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔ نیز اپنے مخالف کے ساتھ میز کی دوسری طرف بیٹھنا ایک اچھا طرز عمل ہے، ہوسکتا ہے کہ دونوں فریقین کا نکتہ نظر ایک نہ ہو لیکن ان اختلافی نظریات کے باوجود مثبت خیالات کا تبادلہ کیا جاسکتاہے۔

ناروے میں امن پسند حلقے مسلم ڈائیلاف فورم کے اس اقدام کی ستائش کررہے ہیں، خاص طور پر فورم کے سربراہ سید یوسف گیلانی کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہاہے۔ متعدل طبقات کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں ناروے ایک بڑھتے ہوئے فتنے سے بچ جائے گا۔

ناروے میں مقیم ممتاز پاکستانی عالم دین علامہ ڈاکٹر سید زوار حسین شاہ کا کہنا ہے کہ ناروے میں تمام لوگوں کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی حاصل ہے اور یہ طرز عمل قابل  قدر ہے۔ نیز اسلام ایک پرامن دین ہے جو معاشرے میں یکجہتی و وحدت پر زور دیتا ہے لیکن ہرگز تشدد کی اجازت نہیں دیتا۔

ناروے میں ایک اور مسلمان مذہبی سکالر علامہ حافظ صداقت علی قادری کے بقول، بحیثیت مسلمان ہمارا فرض بنتا ہے کہ معاشرے میں امن اور آشتی کے فروغ کے لیے کام کریں۔ ہمارا دین تمام مذاہب کے مقدسات کے احترام پر زور دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کے ذریعے محبت و امن پھیلایا جاسکتاہے۔

سیاسی علوم کے ماہر ڈاکٹر سید سبطین شاہ کے مطابق، بات چیت انسان کا ایک اہم ہتھیار ہے اور اس سے مغربی معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کو روکا جاسکتا ہے۔

اوسلو میں نارویجن پاکستانی متحرک سماجی شخصیت ملک محمد پرویز مہر کا کہنا ہے کہ امن و آشتی کو فروغ دینا ایک بہت اچھا قدم ہے اور اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

ناروے کی اسلام مخالف تنظیم  “سیان” یعنی “سٹاپ اسلامیزیشن آف ناروے” اس سے قبل بھی ملک میں قرآن کریم جلاتی رہی ہے جس سے نارویجن مسلمانوں اور پرامن طبقات میں کافی تشویش پائی گئی۔

خاص طور پر گذشتہ سال نومبر میں جب اس تنظیم کے لیڈر لارش تھورسن نے ناروے کے شہر کرستیان ساند میں سرعام قرآن جلایا اور اس کو ایک مسلمان نوجوان نے روکنے کی کوشش کی تو اس واقعے کو پوری دنیا کے میڈیا اور سوشل میڈیا نے کور کیا۔ یہ واقعہ پولیس کی موجودگی میں ہوا جس سے پوری دنیا میں ناروے کی جگ ہنسائی ہوئی اورعالم اسلام میں تشویش پائی گئی۔

Recommended For You

Leave a Comment