پولیس اور فرقہ پرستوں کا فورٹ عباس میں مجلس عزاء پر مشترکہ حملہ ۔ تحریر: سائیں رحمت علی

Sain Rehmat Ali

سترہ اکتوبر کو ایک دوست نے اطلاع دی کہ فورٹ عباس میں پولیس نے فرقہ پرستوں کے ساتھ ملکر مجلس عزا پہ حملہ کر دیا۔ مردانہ پنڈال میں گھس کر ممبر پہ بیٹھے ذاکر امام حسین ؑ کو پیٹا گیا اور اسے گھسیٹ کر ممبر سے نیچے اتارا گیا۔ جب حاضرین ذاکر کی امداد کے لئے آگے بڑھے تو پولیس نے لاٹھی چارج کر دیا اور ساتھ ساتھ مزید نفری کے لئے کال کر دی۔ نفری کے پنہچتے ہی پولیس فورس اور علاقہ کے فرقہ پرستوں نے پنڈال میں جمع حاصرین کو مار مار کر ادھ موا کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پولیس اور فرقہ پرست بد معاش، عورتوں کے پنڈال میں گھس گئے جہاں پر انہوں چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے خواتین کو زد و کوب کیا۔ ضعیف العمر عورتوں اور بچوں کے چیخنے کی آوازیں دور دور تک سنی گئیں۔ قیامت صغریٰ کا منظر تھا۔ فرقہ پرست عناصر نے پولیس کی مدد سے سرعام نسل جگر خور ہونے کا ثبوت دیا۔

اگرچہ یہ انتہائی انسانیت سوز واقعہ ہے لیکن اس کے پیچھے ایک طویل عرصے جاری سازشیں ہیں۔ پاکستان میں فرقہ پرست عناصر کی سرگرمیاں اب کوئی نئی بات نہیں۔ پچھلے چالیس سالوں کے دوران پاکستان کو اس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے کہ جہاں سے واپسی کے لیے ریاست اور عوام کو مل کر وسیع جدوجہد کرنا ہوگی۔ پاکستان میں 1980 تک مجالس عزا و عزادری کے جلوس پر امن ہوتے تھے۔ پولیس بھی ساتھ ہوتی تھی مگر بد امنی کے واقعات دیکھنے یا سننے میں کم ہی آئے تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شیعہ و سنی ملکر جلوس بھی نکالتے تھے۔ کم از کم میں نے کسی اہلسنت کو نہیں دیکھا جو مجلس عزا و عزاداری کا احترام نہ کرتا ہو۔ 1980 میں جنرل ضیاءالحق کی فوجی حکومت نے، اپنی حکومت کو مزید طول دینے کے لئے، ایک طرف تو بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیموں، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور دیگر انتہاپسند گروپوں کا سنگ بنیاد رکھا تو دوسری طرف سندھ میں ایم کیو ایم بنوا کر پیپلز پارٹی سمیت معتدل جماعتوں کو نیست و نابود کرنے کا سوچا۔ سندھ میں جنرل ضیاء نے الطاف حسین کو موقع دے کر سر عام دہشت گردی کی اجازت دی۔ حکومت کی پشت پناہی میں الطاف کی انتہاپسند تنظیم نے سندھیوں، پنجابیوں اور پٹھانوں کا قتل عام شروع کردیا۔ یہ وہی کراچی تھا جہاں پر خواتین رات کے 12 بجے شاپنگ کے لیے جاتی تھیں اور فوجی جرنیلوں نے کراچی کو قبرستان بنا دیا جہاں شام 6 بجے کے بعد ہو کا عالم تھا۔ پنجاب میں علامہ احسان الاہی ظہیر کو شھید کروایا گیا۔ جنرل ضیاء کی مکروہ سوچ تھی کہ شاید پاکستان کے سنی مسلمان رد عمل دکھائیں گے مگر ایسا نہ ہوا۔ فوج نے دوسری چال چلی۔ علامہ عارف الحسینی کو شھید کروایا گیا اور سوچ وہ ہی تھی مگر پاکستان کے شیعہ و سنی علماء نے نہایت بردباری اور اعلیٰ ظرفی کا مظاھرہ کرتے ہوئے فوجی حکومت کے اس وار کو بھی خالی جانے دیا۔ اس کے بعد کوئٹہ میں امام بارگاہ علمدار روڈ پر پہلا خود کش حملہ ہوا جس میں لاشوں کے انبار لگ گئے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں کسی مذھبی مقدس مقام پر اپنی نوعیت کا پہلا خودکش حملہ تھا۔ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کو اس وقت فوجی حکومت کی پشت پناہی حاصل تھی۔ افغان جہاد کے بعد طالبان بنے اور نوے کی دہائی میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ مذہبی انتہاپسند اور دہشتگرد تنظیموں نے کھلے بندوں شیعان حیدر کرار اور اہل سنت کی مساجد پہ حملے کئے۔ 50 سے 100 لاشیں روز مرہ کا معمول بن گیاتھا۔ دہشت گردوں کے منہ کو  ایسا خون لگا اور ان کا ہاتھ اتنا کھل گیا کہ اب کوئی درگاہ، مسجد اور امام بارگاہ ان کے ہاتھوں محفوظ نہ تھی۔ اب نئی صدی کا آغاز ہوا لیکن نہ ناسور تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ حتٰی کہ پشتو کے مشھور شاعر اور صوفی بزرگ رحمان بابا جنہیں پشتون بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھنے ہیں، کے مزار پر بھی حملہ ہوا ۔ یہ ایک پرامن اور انسانیت دوست فکر پر حملہ تھا۔ یعنی پاکستان میں کوئی بھی انسان دوست اور پرامن شہری اور ان کے افکار بھی محفوظ نہیں رہے۔ شیعہ علماء اور شیعہ ڈاکٹرز ، وکلا اور انجینیئرز کو سر عام ٹارگٹ بنایا گیا۔ خاص طور پر ایام محرم بالکل ہی محفوظ نہ تھے۔ یہ خون کی ھولی ہر محرم میں کھیلی گئی۔ 1988 میں جرنل ضیاء اپنے حواریوں سمیت واصل جھنم ہوا مگر نواز شریف کی صورت میں اپنا ہونہار فرزند باقی چھوڑ گیا۔ نواز شریف نے اپنے سیاسی و روحانی باپ کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے شیعہ ٹارگٹ کلنگ جاری رکھی یا پھر اس قتل عام پر اپنی آنکھیں بند رکھیں۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کا دن دہاڑے قتل عام شروع کر دیا گیا۔ اس سے پہلے سیالکوٹ میں امام بارگاہ پہ خود کش حملہ ہوا۔ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں سے پوچھنا چاھوں گا کہ، سرسری تخمینہ کے مطابق، اب تک پاکستان میں 80 ہزار لوگ خود کش دھماکوں میں جاں بحق ہوئے ہیں جن میں اکثریت اہل تشیع کی تھی۔ کیا تمھاری ان بذدلانہ کاروایوں سے عذاداری بند ہو چکی ہے؟ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ہر خود کش حملہ کے بعد پہلے سے زیادہ لوگ ایام محرم و دیگر مواقع پر عزاداری میں شریک ہوتے ہیں۔  عزادارئ امام حسین کسی کا باپ بھی بند نہیں کروا سکتا۔ متوکل جیسے بادشاہ آئے، عزاداری کو روکنا چاہا لیکن خود نابود ہوگئے اور حسینؑ نام اور نام لینے والے باقی ہیں اور عزاداری میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

چاھے پاکستان کی فوجی آمریت ہو یا کوئی نام نہاد سویلین حکومت ہو۔ تم لوگوں نے مولا حسین کے زائرین کو چن چن کر شھید کیا۔ تاریخ گواہ ہے، متوکل کے دور میں مولاحسین علیہ السلام کی قبر مبارک پہ حل چلوائے گئے۔ نہ مٹا نام شبیر نہ مٹے عزادار۔ مٹ گئے آل محمد کو مٹانے والے۔ منھاج القران کے سامنے جس درندگی سے پنجاب پولیس نے قتل عام کیا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ بے غیرت اور بے ضمیر پولیس نے گلو بٹ کی سرکردگی میں دن دہاڑے 14 لاشیں گرائیں جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ عظیم انقلابی پیشوا حضرت آیتہ اللہ خمینی علیہ رحمہ نے فرمایا تھا کہ یہ ہاتھ جو ہمارے سینے پر پڑتا ہے حقیقت میں یہ ماتمی ہاتھ یزید پلید کے منہ پہ طماچہ ہے۔ بے شرمو یزدیوں! کان کھول کر سن لو مولا حسین علیہ السلام کی عزاداری ہوتے رہے گی۔ تمھیں اپنی بیٹی کا حیا نہیں تم کسی کی بہو بیٹی کا کیا حیا کرو گے۔ وڈیروں اور جاگیرداروں کے تلوے چاٹنے والے کتو! یاد رکھو ہماری بہو بیٹیاں جناب سیدہ زینب سلام للہ علیہا کی سنت پہ عمل کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ہمارے نوجوان شھزادہ علی اکبر کے نام پہ مرنے کے کئے تیار ہیں۔ ہمارے بزرگ حضرت حبیب ابن مظاھر کی سنت پہ عمل پیرا ہیں۔ فورٹ عباس کے اس حملے میں ملوث پنجاب پولیس کے بے غیرتو! تم کیا اور تمھاری اوقات کیا۔ ہم اپنے ناموس کی طرف ہر اٹھنے والے ہاتھ کو کاٹ دیں گے۔ ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعہ کے ذمہ داران کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو جس طرح تم نے اسلام آباد کا محاصرہ کیا تھا ہم تمھارے گھروں کا محاصرہ کریں گے۔ ہم شیعان حیدر کرار امن کے داعی ہیں۔ ہم کسی کو بھی پاکستان کا امن تباہ برباد نہیں کرنے دیں گے۔ پاکستان ہمارے بابائے قوم محمد علی جناح نے بنایا تھا جو محب اہلیبیت تھے۔ اس کے نام پہ آنچ نہیں آنے دیں گے۔ ہم عزاداری مولا حسین علیہ السلام پہ سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ یہ ہماری شہ رگ ہے۔ ہماری زندگی کا مقصد عزادری ہے۔ ہمار ا جینا مرنا عزادری ہے۔ عزاداری امام حسینؑ کی اس عظیم قربانی کی یاد تازہ کرتی ہے جو دراصل انسانیت کی بالادستی اور عمدہ اصولوں کے تحفظ کے لیے دی گئی۔ امام نے اپنی اوراپنے خاندان اور ساتھیوں کی قربانی دے کر اسلام کے سنہرے قوانین اور انسانیت کو بچایا۔

ہمییں بخوبی علم ہے کہ عزادری مولا حسین علیہ السلام سے وقت کے یزیدیوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ اور کیوں نہ ہو۔ کیونکہ وہ یزید پلید کی فکری اولاد ہیں۔ ان کا شیطانی تعلق اسی شجرہء خبیثہ سے ہے ۔ ہمیں اللہ کا شکر ہے کہ اس ذات پاک نے ہاتھ عطا کئے ہیں جن سے ہم ماتم شبیر سدا کرتے رہیں گے۔

Recommended For You

Leave a Comment