ہائوسنگ اسکیم، پچھلی حکومتی مشینری نہ بنا سکی تو 50؍ لاکھ گھر کیسے ممکن؟

اسلام آباد(احمدنورانی) جس وقت موجودہ حکومت پرجوش انداز سے 50؍ لاکھ گھروں پر مشتمل ہائوسنگ اسکیم شروع کرنے جا رہی ہے اس وقت 15؍ ارب روپے میں فروخت ہونے والی پارک انکلیو نامی سرکاری تجارتی ہائوسنگ اسکیم کے حوالے سے ایک بہت بڑے اسکینڈل پر کسی کی نظر ہی نہیں پڑی، سیکڑوں اوور سیز اور مقامی پاکستانیوں نے اپنی محنت کی کمائی اس پروجیکٹ میں ادا کی لیکن برسوں گزر جانے کے باوجود انہیں آج تک پلاٹ نہیں ملا۔پچھلی حکومتی مشینری ہائوسنگ اسکیم نہ بنا سکی تو موجودہ 50؍ لاکھ گھروں کی تعمیر کیسے ممکن ہوگی۔ 2011ء میں پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت نے سی ڈی اے کے تحت ’’اسلام آباد کا نگینہ‘‘ (Jewel of Islamabad)کے نام سے سی ڈی اے کے تحت یہ پروجیکٹ شروع کیا تھا اور اس کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت نے 2014ء اور 2015ء میں اس منصوبے کو توسیع دی، حکومت کی جانب سے پارک انکلیو کو اربوں روپے کمانے کیلئے استعمال کیا گیا لیکن مقررہ وقت میں لوگوں کو پلاٹس کا قبضہ دینے کا وعدہ وفا کرنے میں ناکامی ہوئی۔ 2011ء میں پروجیکٹ کا فیز ون شروع کیا گیا جسے ترقیاتی کام کے بعد جنوری 2013ء میں ان لوگوں کو دیا جانا تھا جنہوں نے کمرشل نرخوں پر پلاٹس خریدے تھے جبکہ اسکیم کے فیز ٹو کا قبضہ 2015ء کے اختتام یا 2016ء کے آغاز میں دیا جانا تھا۔ 2011ء میں ایک کنال پلاٹ ایک کروڑ 20؍ لاکھ روپے میں فروخت کیا گیا جبکہ دوسرے مرحلے میں یعنی چار سال بعد اسی پلاٹ کی قیمت دو کروڑ 20؍ لاکھ روپے ہو چکی تھی۔ 8؍ سال گزرنے کے بعد، پارک انکلیو اول کے 50؍ پلاٹ مالکان قبضے کے منتظر ہیں جبکہ فیز ٹو میں پلاٹس کا ترقیاتی کام ہوا ہے اور نہ ہی کسی کو قبضہ دیا گیا ہے۔ سی ڈی اے حکام نے ذرائع کی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سی ڈی اے نے سیکٹر ڈویلپمنٹ اور مقررہ تاریخ پر قبضہ دینے کے جھوٹے وعدے کرکے عوام کو دھوکا دیا جبکہ یہ حقیقت بھی چھپائی گئی کہ جس وقت پروجیکٹ شروع کیا گیا تھا اس وقت سی ڈی اے کے خود کے پاس زمین کا قبضہ نہیں تھا۔ عوام کو دھوکا دینے کے معاملے میں کسی کا احتساب ہوا ہے اور نہ ہی قبضے کے حصول کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی ہے تاکہ پروجیکٹ پایہ تکمیل کو پہنچ سکے اور ان لوگوں کو پلاٹس کا قبضہ دیا جا سکے جنہوں نے سرکاری ادارے پر بھروسہ کرنے کی حماقت کی تھی۔ ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ ایسی ناکامیوں اور دھوکے کے بعد کون حکومت پر بھروسہ کرے گا! دلچسپ بات یہ ہے کہ 29؍ اگست 2018ء کو وفاقی محتسب سید طاہر شہباز نے پارک انکلیو متاثرین کی شکایات سننے کے بعد سی ڈی اے کے چیئرمین کو ہدایت کی کہ زمین کے حصول میں تاخیر کے ذمہ دار افسران کیخلاف کارروائی کی جائے۔ وفاقی محتسب نے سی ڈی اے کو یہ ہدایت بھی کی کہ ایک ماہ کے اندر زمین کے حصول اور پلاٹس کا ترقیاتی کام شروع کیا جائے تاکہ سات سال سے پلاٹس کے قبضے کے منتظر لوگوں کو قبضہ دیا جا سکے۔ تاہم، محتسب کے حکم کے باوجود کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔ پی ٹی آئی حکومت نے سرکاری زمین پر اور پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت کم آمدنی والے شہریوں کیلئے نیا پاکستان ہائوسنگ پروجیکٹ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم، سرکاری محکموں کی ساکھ انتہائی خراب رہی ہے کیونکہ وفاقی دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ عوام سے پیسے بٹورنے کے باوجود تین ہائوسنگ پروجیکٹس میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس واقعے نے عام شہریوں کے اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچائی ہے۔ پارک انکلیو اسکینڈل کے حوالے سے سی ڈی اے حکام میڈیا سے بات چیت سے کتراتے ہیں۔ ایک سرکاری ذریعے کا کہنا ہے کہ موجودہ انتظامیہ اس صورتحال کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں کیونکہ پروجیکٹ نئی انتظامیہ کے آنے سے بہت عرصہ قبل شروع کیا گیا تھا، نئی انتظامیہ میں جوش و جذبے کا بھی فقدان ہے کہ وہ اس پروجیکٹ کو مکمل کرے کیونکہ حکومت بے حس بنی ہوئی ہے۔ اس موضوع پر سی ڈی اے نے دی نیوز کے ساتھ ماضی میں ہونے والی بات چیت میں اعتراف کیا تھا ادارہ زمین کا قبضہ نہ ہونے کے باوجود پروجیکٹ شروع کرنے کا ذمہ دار ہے، اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا کہ فیز ون کی تکمیل میں ناکامی کے باوجود فیز ٹو کا اعلان کر دیا گیا اور اس کیلئے بھی زمین کا قبضہ نہیں تھا۔ 2017ء میں اپنے تحریری جواب میں سی ڈی اے نے اعتراف کیا تھا کہ فیز ون کیلئے زمین نہیں تھی حتیٰ کہ سات سال بعد بھی زمین نہیں تھی۔ سی ڈی اے نے یہ بھی اعتراف کیا کہ اسکیم شروع کرنے، زمین کا قبضہ نہ لینے اور مقررہ وقت پر لوگوں کو پلاٹس کا قبضہ نہ دینے کے فراڈ میں ملوث افسران کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ سی ڈی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ سی ڈی اے نے اب پارک انکلیو پروجیکٹ کی قسمت کڑی ماڈل ولیج کے مستقبل کے ساتھ جوڑ دی ہے۔ پارک انکلیو پروجیکٹ جب شروع کیا گیا تھا اس وقت ایسی کوئی بات نہیں کی گئی تھی لیکن اب سی ڈی اے یہ بہانہ کر رہا ہے کہ پہلے کڑی ماڈل ولیج کیلئے زمین کے حصول کیلئے قبضہ چھڑایا جائے گا جس کے بعد پارک انکلیو کی زمین پر قائم قبضہ ان لوگوں سے چھڑایا جائے گا جو وہاں رہتے ہیں۔ سی ڈی اے نے دعویٰ کیا کہ 2017ء تک (پروجیکٹ شروع ہونے کے 6؍ سال بعد) فیز ون کیلئے زمین کا 92؍ فیصد قبضہ چھڑا لیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومتوں نے پارک انکلیو پروجیکٹ کا معاملہ نمٹانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی لیکن اسی وقت وفاقی محتسب نے رواں سال اگست میں سنائے گئے اپنے فیصلے میں الاٹیز کے حق میں سی ڈی اے کو مذکورہ بالا ہدایت کر دی تھی۔

خبر: جنگ

Recommended For You

Leave a Comment