شبیر کے حبدار کو قیدی نہ بناو ۔۔۔ تحریر: سائیں رحمت علی

 فیصل رضا عابدی 2 ہفتے سے مقید ہیں۔ ان کو توہین عدالت کے تحت گرفتار کر کے جیل میں بند کردیا گیا ہے۔ عدالت کا احترام ہر شھری پہ واجب۔ در حقیقت یہ احترام عدالت نہیں بلکہ ملک کے قانون کا احترام ہوتا ہے جو ہر شھری کو عدالت ، بحیثیت ادرہ، کے احترام کا پابند کرتا ہے۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ کا اگر سطحی مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عوام نے ہمیشہ عدالت کا احترام کیا ہے مگر عدالت نے عوام کے اعتماد کو پہ در پہ ٹھیس پنہچائی ہے۔ ملک غلام محمد نے اسمبلی توڑی تو سپیکر مولوی تمیزالدین نے سندھ بلوچستان ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کر دیا۔ ہائی کورٹ کے جج البرٹ کنسٹٹائین نے مقدمہ کی سماعت کے بعد فیصلہ مولوی صاحب کے حق میں کر دیا۔ اس وقت کی مغربی پاکستان کی مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی۔ جسٹس منیر نے بجنبش یک قلم ہائی کورٹ کے فیصلہ کو منسوخ کرکے فالج زدہ ملک کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ یہ بدنام زمانہ فیصلہ نے نظریہ ضرورت ایجاد کیا۔ اس کے بعد بھٹو کیس میں مولوی مشتاق اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انوار الحق نے جس تعصب اور عناد سے بھر پور فیصلہ دیا وہ ایک مثال بن کے رہ گیا۔ یہ بات قابل غور ہے ان تمام جج صاحبان نے اپنے قانونی حلف کو پامال کرتے ہوئے جرنل ضیاء کے درباری لہونے کا نیا حلف لیا۔ جنرل مشرف تشریف لائے تو جج صاحبان جماعت اسلامی کے کیس میں جرنل مشرف کو 2 سال کی چھٹی دے دی جو چاھو کرو یہ ملک تمھارے باپ کی جاگیر ہے۔ جنرل مشرف نے 2 سال میں ریفرنڈم کا ڈھونگ رچاکر قوم کو ایک دفعہ پھر بے وقف بنایا۔ انہی جج صاحبان نے جنرل سے لاھور وفاداری کا حلف اٹھا کر ایک مرتبہ پھر آئین کی دھجیاں بکھیریں۔ اس کے بعد کے حالات بھی کچھ اسی قسم کے رہے۔ حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ ، جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں، 3 مجرموں، نواز شریف، مریم نواز اور صفدر کو بری کر دیا۔ جہاں تک عام آدمی تعلق ہے تو پاکستان میں ایک بڑی مشھور کہاوت ہے کہ اللہ کسی کو مقدمہ اور بیماری میں مبتلا نہ کر دے۔ غریب آدمی عدالتوں میں دھکے کھا کر انصاف کا ارمان دل میں لے کر اس دنیائے فانی سے کوچ کر جاتا ہے۔ پیشیاں اس کے پوتے اور پڑ پوتے بھگتے ہیں۔ یہ تاریخی پس منظر تھا۔ بات توہین عدالت کی ہو رہی تھی۔ گذشتہ 5 سالوں میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ کم از کم مجھے پاکستان کی عدالت پہ اعتماد نہیں رہا۔ دن دہاڑے 14 انسانوں کو پولیس نے نہایت بے دردی اور بے رحمی سے لاہور میں قتل کیا۔ انکوائری ہوئی تو جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ پہ عمل تو دور کی بات، اس کو شائع بھی نہیں کیا گیا۔ ن لیگ کے طلال چودھری، خواجہ سعد رفیق اور دانیال عزیز نے جس طرح سر عام عدالت کی عزتی کی وہ سب آن ریکارڈ ہے۔ نواز شریف کی طوطی مریم اورنگزیب نے بھی اس بہتی گنگا میں اپنے نجس ھاتھ دھوئے۔ جی اور نہال ہاشمی نے سر عام ججوں پر زمین تنگ کرنے کی دھمکیاں دیں۔ ان کے بچوں کو اٹھوانے کی دھمکیاں ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ مولوی خادم حسین نے ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ جج صاحبان کو کتے اور دیگر غلیظ الفاظ سے پکارا۔ اس مولوی نما ماڈرن شیطان نے ٹی وی پہ عدالتوں اور ججوں کا نام لے کر گندی گندی گالیاں دیں۔ نام نہاد مولوی عزیز معروف مولوی برقعہ اور موصوف کی بیگم نے عدالتوں اور ججوں پہ سر عام لعن طعن کی ہے۔ اس کے باوجود ججوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ فیصل رضا عابدی نے جج صاحبان کو تنقید کا نشانہ بنایا مگر عابدی صاحب نے توہین اور ہتک نہیں کی۔ کیا جج صاحبان پہ تنقید کرنا جرم ہے؟ اگر جرم ہے تو جج صاحبان کو آئینی وضاحت دینی پڑے گی۔ شیخ رشید، محمد علی درانی، چودھری پرویز الاہی جیسے فوج کے درباری اور چمچے چیخ چیخ کر کہتے رہے ہیں کہ فوج پہ تنقید نہ کریں۔ کیوں؟ فوج کے باپ کا ملک ہے یہ؟ کیا پاکستانی فوج کے متعلق صحاح ستہ میں تواتر کی حدیثیں موجود ہیں کہ فوج تنقید سے مبرا ہے؟ کیا پاکستانی فوج نے آئین کو تباہ و برباد نہیں کیا؟ کیا ملٹری نے منتخب وزیر اعظم کے خلاف شب خون مار کر بھٹو صاحب کو تختہ دار پہ نہیں لٹکایا؟ کیا پاکستانی فوج نے اپنی ناقص حکمت عملی کے تحت افغانستان میں دخل اندازی نہیں کی؟ طالبان، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی جیسی بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیموں کا سنگ بنیاد نہیں رکھا؟ ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی لقمہء اجل بن گئے۔ کیا اس کی ذمہ دار فوج نہیں؟ ہزارہ برادری کا دن دہاڑے قتل عام کیا گیا۔ زائرین کو بسوں سے اتار کر بے دردی سے شھید کیا گیا۔ مسافروں کو بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد قتل کیا گیا۔ کیا ان تمام واقعات کی ذمہ دار فوج نہیں؟ پاکستان میں کلاشنکوف اور منشیات کلچر کو کس نے شروع کروایا اور کس نے فروغ دیا؟ 70 سالہ تاریخ میں پاکستانی فوج نے جو گل۔کھلائے ہیں ان کی لسٹ بہت لمبی ہے۔ اسی طرح عدالت کے ججوں نے ہر یزید وقت کے ہاتھ پہ بیعت کر کے اپنی نجاست کا ثبوت دیا ہے۔ جج صاحبان! اگر پاکستان کے لوگ آپکو برا بھلا کہتے ہیں اور تنقید کرتے ہیں تو وہ حق بجانب ہیں۔ کیونکہ آپ ضمیر فروش ہو۔ آپ نے اپنے ایمان کو بیچا ہے۔ آپ نے ہر یزید ملعون کے ہاتھ پہ بیعت کی ہے۔ آپ نے ہر چڑھتے ہوئے سورج کی پوجا کی ہے۔ آپ نے غریب کے حق انصاف کو تسلیم نہیں کیا۔ آپ نے عوام کے اعتماد کی دھجیاں بکھیری ہیں۔ اب اگر ایک شھری نے آپ پہ تنقید کی ہے تو آپکو دست لگ گئے ہیں۔ فیصل رضا عابدی نے قانونی جنگ لڑی ہے۔ عابدی ان یتیموں کی آواز جن کے والدین قتل ہوئے ہیں۔ یہ ان بیواوں کی آواز ہے۔ فیصل رضا عابدی ان معذور بوڑھے ماں باپ کی اولاد ہے جن کی گودیں اجڑی ہیں۔ قانون آپ کے گھر کی لونڈی ہے۔ آپ قید تو کر سکتے ہیں مگر آواز کو دبا نہیں سکتے۔ اب پاکستان کے عوام آپکا گریبان پکڑ کر انصاف مانگیں گے۔ وہ دن دور نہیں۔ تیار ہو جائیں۔ جج صاحبان! یاد رکھیں کہ آپ نے شبیر کے حبدار کو قید کیا ہے اور باہر آنے پر مختار بن جائے گا

Recommended For You

Leave a Comment