کیا قادری، زرداری مفاہمت طے شدہ سیاسی نقشہ بدل سکتی ہے؟

Researcher and Senior Journalist Syed Sibtain Shahتحریر: سید سبطین شاہ

کچھ حلقوں میں کافی عرصے سے یہ بات گردش کررہی تھی کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کو ہرانے کے لیے دیگر تمام سیاسی جماعتیں متحد ہوجائیں اور سندھ میں پیپلزپارٹی کو ہرانے کے لیے وہاں دیگر تمام جاعتیں متحد ہوجائیں۔ جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف نے اس سال اگست میں اپنےدورہ ناروے کے دوران یوم آزادی پاکستان کے حوالے سے نارویجن پاکستانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کے دوران اسی طرح کے فارمولے کی تائید کی تھی۔ انھوں کہاتھا کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کو شکست دینے کے لیے دیگرتمام جماعتوں کا اتحاد قائم کیا جائے اور اسی طرح سندھ میں پی پی پی کو بھی تمام چھوٹی جماعتوں کا اتحاد ہی شکست دے سکتاہے۔ واقعاً ملکی سیاست کے تعین کے لیے ان دوصوبوں اور ان میں برسر ان دوجماعتوں کا کردار بہت اہم ہے۔ یہ جماعتیں کئی دفعہ دوسروں کی بات مان لیتی ہیں اور کئی دفعہ اپنی سوچ کے مطابق امورانجام دیتی ہیں۔ یہ جماعتیں ملک گیر سیاست کرتی ہیں اور قومی سطح پر اب بھی ان کی اہمیت دیگر تمام جماعتوں سے زیادہ ہے۔ مشرف نے یہ بھی کہاتھا کہ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں حالات قابو میں ہیں اور وہاں یہ دو جماعتیں اتنی مضبوط نہیں رہیں۔ مشرف نے یہ بھی کہاتھا کہ اگرایسا نہ ہوسکے تو پھر ایک لمبے عرصے کے لیے ایک قومی حکومت قائم کی جائے جو ملک کی سیاسی و معاشی اصلاحات کی انجام دہی تک برسراقتدار رہے۔ مشرف کے بقول، ان دونوں میں سے کسی ایک صورت کے قابل عمل ہونے کے بعد ان کی (مشرف) واپسی کی راہ بھی ہموار ہوجائے گی۔

اگرچہ مشرف کے اس بیان پر اس وقت کسی نے کوئی خاص توجہ نہیں دی لیکن آج اس کے اسرار و رموز عیاں ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ مشرف اگست میں پاکستان یونین ناروے کے چیئرمین چوہدری قمراقبال کی دعوت پر اوسلو آئے تھے۔ راقم کی نظرمیں، اگر سابقہ صدر اور پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹرطاہرالقادری کے ساتھ ہاتھ نہ ملاتے تو پھر مشرف کی خواہش پر عمل درآمد کے لیے راہ ہموار ہوجاتی۔ اس صورت میں ان کی پہلی سے دوسری تجویز زیادہ قابل عمل نظرآرہی تھی اور مقتدرہ حلقوں کے لیے اس پر عمل درآمد کروانا بھی زیادہ آسان تھا۔ یعنی ایک لمبے عرصے کے لیے قومی حکومت کا قیام مسلم لیگ ن اور پی پی پی کو ہرانے سے زیادہ سہل کام تھا۔ اب زرداری نے سیاسی نزاکت کو دیکھتے ہوئے قادری کے اتحاد میں کودنے کو ترجیح دی ہے۔ یہ ان کے لیے اس لیے بہتر ہے کیونکہ ایک تو وہ مقتدرہ حلقوں کے دباو سے بچ جائیں گے اور دوسری طرف اگر عمران خان کی تحریک انصاف کے ساتھ مل کر کوئی نیا سیاسی یا انتخابی اتحاد بنتاہے تو پی پی پی کے دوبارہ برسراقتدار آنے کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔ کیونکہ عمران خان کی جماعت کے لیے اکیلے حکومت بنانا مشکل کام ہوگا۔ ایسی صورت میں مشرف کا ملک میں واپس آنا ایک مشکل کام ہوگا۔ اگرفوج ان کو واپس لاناچاہتی ہے تو پھر اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتاہے کہ زرداری اور ان کے فرزند قاتل قاتل مشرف کے نعرے لگوا کر زیادہ سے زیادہ سیاسی مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف زرداری قادری کے ساتھ اتحاد کرکے سانحہ ماڈل ٹاون پر ہمدردی کررہے ہیں اور دوسری طرف وہ نوازشر یف سے بھی پرانی عداوت کا بدلنا لینا چاہتے ہیں۔ کچھ حلقے زرداری کے بارے میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک بڑے سیاسی گرو ہیں جو وقت کے نزاکت کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ زرداری اور نوازشریف دونوں کے موقف میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں مشرف کے واپس آنے کے مخالف ہیں۔ نوازشریف مشرف کو اپنی نوے کی دہائی کی دوسری حکومت کے قاتل سمجھتے ہیں اور زرداری ان کو اپنی اہلیہ محترمہ بے نظیربھٹو کا قاتل سمجھتے ہیں۔ اگرچہ مشرف نے پاکستان واپس آنے کے لیے پر تولے ہوئے اور وہ صرف اس بات کے انتظار میں ہیں کہ نوازشریف کے بعد زراری کو اقتدار نہ مل جائے لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ اگرچہ نوازشریف دوبارہ حکومت بنانے کے لیے کوشش کریں گے لیکن ان کو ایک بار پھر اقتدار ملنا مشکل امر ہے۔ البتہ ان کے مخالف بننے والا ممکنہ اتحاد کامیاب ہوتا ہوا نظر آرہاہے جس میں مختلف جماعتیں شامل ہوں گی۔

اس سلسلے میں زرداری کی قادری سے دوسری ملاقات کے دوسرے دن کی کل جماعتی کانفرنس بہت اہم ہے جوملک کے سیاسی مستقبل کا تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ دوسری طرف شریف برادران کو وقت سے پہلے اپنی حکومت کے پاوں اکھڑتے اور مستقبل تاریک نظرآرہاہے اور اسی لئے دونوں برادران ریاض اور جدہ کا رخ کررہے ہیں جہاں کے بارے یہ باتیں زبان زد عام ہیں کہ سعودی خاندان ان کی پاک۔فوج سے مصالحت کروانے میں کردار ادا کرے گا۔ یعنی ایک نیا این آر و تیار ہورہاہے جو نہ صرف موجودہ حکومت کو بچاسکے بلکہ انتخابات کے بعد بھی مسلم لیگ ن کی حکومت کے قیام کی مشروط ضمانت دے سکے۔ ملک کا سیاسی مستقبل کیا بنتا ہے۔ کیا یہ حکومت اپنا وقت پورا کرسکے گی۔ کون سا نظام اور کون لوگ ملک میں اقتدار سنبھالنے کے لیے تیار ہورہے ہیں، یہ سارے باتیں وقت کے ساتھ عیاں ہوجائیں گی۔

 




Recommended For You

Leave a Comment