اوسلو (پ۔ر)
پاکستان یونین ناروے کے چیئرمین چوہدری قمراقبال نے کہاہے کہ اوورسیزپاکستانیوں کے مسائل کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان عمران خان کا حالیہ بیان قابل ستائش اور خوش آئندہ ہے۔
چوہدری قمراقبال نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ عمران خان نے درست بات کی ہے کہ سفارت خانوں کا اولین مقصد بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کی خدمت کرنا ہے اور اس کے بعد انھیں ملک میں سرمایہ کاری لانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
وزیراعظم نے ہمسایہ ملک انڈیا کے سفارتخانوں کی بھی درست مثال دی ہے کہ پاکستان کی نسبت انڈین سفارتخانے سرمایہ لانے کے لیے بہت زيادہ متحرک ہیں۔ اس کے علاوہ، بھارتی سفارتخانے اپنی کمیونٹی کو بھی مایوس نہیں کرتے۔ بطور مثال ناروے میں بھارت کا سفارتخانہ بہت فعال ہے اور وہ اپنی کمیونٹی کے علاوہ ناروے کی حکومت کے ساتھ بھی مضبوط رابطے استوار کئے ہوئے ہیں تاکہ اس کے ملک بھارت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو، زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری بھارت لے جائی جاسکے۔
قمراقبال نے کہاکہ بعض پاکستانی سفیر تو اپنے خاص مزاج کے لوگ ہوتے اور اپنے مزاج کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتے۔ اگر کوئی ان پر مثبت تنقید بھی کرتا ہے تو اسے برداشت نہیں کرتے۔ کئی بار تو تنقید کرنے والے سے ضد و خصومت رکھ لیتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہم اس سے پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں اور آج سے تین سال قبل اس وقت کے وزیرداخلہ احسن اقبال کے دورہ ناروے کے دوران بھی ہم نے ان کے سامنے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ سفارتخانوں کے عملہ کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ کے حکام کو تحریری طور پر خطوط لکھے۔ ہم وقتاً فوقتاً اوورسیزپاکستانیوں کے مسائل کو متعلقہ پاکستانی اداروں کے سامنے پیش کرتے رہتے ہیں۔
چیئرمین پاکستان یونین ناروے نے مطالبہ کیا کہ پوری دنیا بالخصوص یورپ میں پاکستانی سفارتخانوں کے بارے میں چھان بین کی جائے کہ کیا وہ وہاں پاکستانیوں کے لیے خدمات اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے اہداف کو پورا کررہے ہیں یا نہیں۔
اس کے علاوہ، سفارتی عملے کو تعیناتی سے پہلے اس بات کی تربیت کی جائے کہ انہوں کس طرح پاکستانی کمیونٹی کے مسائل حل کرنے ہیں اور پاکستان اور میزبان ملک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ہے اور پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کی کوشش کرنی ہے۔
قمراقبال نے کہاکہ اب روایتی سفارتکاری کی ضرورت نہیں بلکہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق سفکارتکاری کی ضرورت ہے جس سے ملک و قوم کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔
قمراقبال نے بعض سابق سفیروں بشمول شمشاد احمد خان اور سلیمان بشیر کے ان بیانات کو بھی مسترد کیا جن میں انہوں نے وزیراعظم کے بیان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ساری دنیا کی سامنے پاکستانی سفیروں کی تذلیل قرار دیاہے۔
چیئرمین پاکستان یونین ناروے نے واضح طور پر کہاکہ دنیا پہلے ہی پاکستان میں کرپشن، سیاستدانوں کے کارنامے، پاکستانی بیوروکریسی اور عدلیہ کی غیرتسلی بخش کارکردگی جانتی ہے، اس لیے عمران خان کے بیان سے تذلیل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لہذا اشد ضروری ہے کہ تمام ادارے اور سرکاری عہدیدار اپنی اصلاح کرکے اپنے وقار میں اضافہ کریں۔ اس سے پاکستان کا وقار بھی بلند ہوگا۔
قمراقبال نے کہاکہ وزیراعظم نے سفیروں کی اصلاح کی بات کی ہے اور بحیثیت سربراہ حکومت سفارتکاروں کو فرض شناسی دکھاتے ہوئے وزیراعظم کی بات ماننا ہوگی اور ویسے بھی اخلاقی طور پر بھی کسی کی اصلاح ایک اچھا اقدام ہے۔ اس بات پر سابق سفارتکاروں کو ناراض نہیں ہونا چاہیے تھا بلکہ وزیراعظم کے بیان کا خیرمقدم کرنا چاہیے کیونکہ وزیراعظم کا یہ اقدام ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔
انہوں نے کہاکہ ایک اور بات کرنا ضروری ہے کہ ہرعہدے پر تعیناتی میرٹ پر ہو۔ سفارشی نظام کو بھی ختم ہونا چاہیے۔ میرٹ کے تحت تعیناتی سے نظام میں بہتری آئے گی۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض سفراء اپنے نیچے عملہ بھی اپنی مرضی کے ساتھ لاتے ہیں جن کی اکثر تربیت نہیں ہوتی۔ پبلک سروس یا پبلک ڈیلنگ ایک مہارت ہے۔ ان کو کورسس کرانا چاہیے کہ کس طرح پبلک ڈیلنگ کی جاتی ہے۔ بعض سفارتکاروں کا رویہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ بعض اوقات کسی کو ضروری انفارمیشن دینا اور اس کی مدد کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ کئی ملکوں میں پاکستانی بعض اوقات چھوٹے موٹے جرائم میں گرفتار ہوجاتے ہیں جن کی قانونی مدد کے لیے وہاں پاکستانی سفارتخانے کوئی اقدام نہیں کرتے اور اس وجہ سے وہ طویل عرصہ جیلوں میں پڑے رہتے ہیں۔
قمراقبال نے مزید کہاکہ اس بات کی بھی چھان بین ضروری ہے کہ ابتک کس سفیریا سفارتکار نے پاکستان کے مفاد کے حوالے سے کتنی کارکردگی دکھائی اور کتنی سرمایہ کاری پاکستان لانے میں کامیاب ہوئے۔
چیئرمین پاکستان یونین ناروے نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ، وزیراعظم سٹیزن پورٹل اور دیگر پاکستانی اداروں بشمول اوورسیز پاکستانی کمیشن کے بارے میں بھی تحقیقات کی جائیں کہ اب تک معلوم ہوسکے کہ یہ ادارے کس حد تک ان باہر رہنے والے پاکستانیوں کی شکایات کا ازالہ کرتے ہیں کیونکہ مشاہدے میں آیا ہے کہ اوورسیزپاکستانیوں کی اکثر شکایات پر انہیں ریلیف نہیں مل رہا بلکہ مختلف محکموں میں تعینات نچلا طبقہ مبہم اور غیرمنطقی جوابات دے کر اپنے حکام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے عملی طور پر شکایت کنندہ کی دادرسی نہیں ہوتی۔