پوکھت کا سفر – (تحریر ،محمد طارق )۔

This slideshow requires JavaScript.

اس سال نارویجین پریمیئر کرکٹ لیگ جیتنے کے بعد سنسن کرکٹ کلب کی انتظامیہ نے پرانے اور سنیئر کھلاڑیوں کے ساتھ غیرملکی ٹور کا پروگرام بنایا، کیونکہ پچھلے چند سالوں سے کلب کے پرانے کھلاڑی مل کر ہر سال اکٹھے ایک بیرون ملک کا دورہ کرتے ہیں ، امسال بیرون ملک سفر جانےکا پروگرام پوکھت کا بنا ، اس سفر کی چند جھلکیاں پیش خدمت ہیں –

پوکھت جنوب مشرقی ایشیا کے ملک تھائی لینڈ کا جزیرہ ہے جس کی آبادی 4 لاکھ نفوس پر مشتمل ، پوکھت جزیرہ تھائی لینڈ کے 76 اضلاع میں سے رقبے کے اعتبار سے بڑا ضلع ، جبکہ آبادی کے اعتبار سے درمیان درجے کا ضلع ہے –

تھائی لینڈ کی حکومت 2014 سے ایک نگران حکومتی سیٹ اپ کے تحت چلائی جارہی ہے ، اس نگران حکومت کو تھائی فوج اور تھائی بادشاہ کی مکمل حمایت حاصل ہے ، وفاقی حکومت مکمل طور پر آمرانہ نظام کے تحت چلائی جارہی ہے ، جبکہ ضلعی اور لوکل گورنمنٹس نیم جمہوری انتخابی عمل ک تحت فورم کی گئ ہیں ، ہر شہر میں منتخب میئر ہے ، لیکن ضلعوں کی انتظامی طاقت ضلعی گورنرز کے پاس ہے ، ضلعی گورنرز کو وفاقی وزارت داخلہ مقرر کرتی ہے ، اس طرح نچلی سطح پر عوامی نمائندوں کے ماتحت چلائی جانے والی لوکل گورنمنٹس بھی وفاقی آمر حکومت کے رحم وکرم پر ہوتی ہیں ، کہ کب کسی وقت ایک وفاقی حکومتی آرڈر پر کوئی بھی ضلعی حکومت ختم کی جا سکتی ہے ، 2018 میں سیاسی پارٹیوں ، سول سوسائٹی کے مطالبے پر اب تھائی حکومت 2019 میں عام انتخابات کرانے کا پروگرام بنا رہی ہے –

پوکھت جزیرہ میں ہر سال 30 لاکھ کے قریب سیاح آتے ہیں ، پوکھت میں آنے والے زیادہ تر سیاح چین ، روس، انڈیا اور یورپ کے مختلف ممالک سے آتے ہیں ، تھائی لینڈ کی ٹوٹل آمدن میں سیاحت کا حصہ 19 فیصد ہے ، تھائی لینڈ چاول برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے ، چاول اور سیاحت کے بعد اس ملک کی دوسرا بڑا ذریعہ آمدن ربڑ اور معدنیات کی پیداوار ہے –

پوکھت جزیرہ میں سالانہ 4 ملین سیاح آنے کے باوجود جزیرے کا ہر شہر، گاوں صاف ستھرا ہے ، مقامی شہروں اور گاوں کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے لوکل گورنمنٹ نے بجٹ میں ایک کثیر رقم رکھی ہوئی ہے ، ساتھ ہی کوڑے کرکٹ کو صحیح طرح سے ٹھکانے لگانے کے لیے مقامی حکومت نے پرائیویٹ کمپنیوں کو ساری ذمہ داری بذریعہ ٹینڈر سونپ دی ہے ، ساتھ ہی لوکل گورنمنٹ نے ہر گھر، ہر دکان، ہوٹل، کارخانے پر کوڑا کرکٹ ٹیکس لگا یا ہو ا ہے ، اس ٹیکس رقم سے ضلعی جزیرہ حکومت کو کافی سپورٹ مل جاتی ہے ، اس رقم کو کوڑے اور گندگی کو سنبھالنے کی مد میں استعمال کرنے سے گلیاں ، سڑکیں صاف ستھری نظر آتی ، ساتھ ہی مقامی حکومت نے شہروں کے مختلف علاقوں میں
تحریری طور پر سائن بورڈز، تنبیہ بورڈز چسپا کئے ہوئے ہیں ،
ان سائن بورڈز پر واضع الفاظ میں لکھا ہو ا کہ سڑکوں ، گلیوں اور پبلک مقامات پر گندگی پھیکینا ایک جرم ہے ، اگر کوئی شہری ، سیاح کوڑے کو سڑک یا گلی میں پھینکنے ہوئے دیکھا گیا تو اس کو اسی وقت 10000 بھات جرمانہ ادا کرنا پڑے گا –

پورے پوکھت ضلع میں عام پبلک سے سرعام مانگنا اور بھکاری بننا سخت منع ہے، اگر کوئی لوکل باشندہ اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث پایا جائے تو مقامی پولیس اسی وقت اس پر مقدمہ دائرکرکے جیل بھیج دیتی ہے ، ان قوانین کی سختی کی وجہ سے مقامی بھکاریوں نے مانگنے کا نیا طریقہ نکالا ہے ، کہ وہ کچھ پھول، یا عام استعمال روزمرہ استعمال کی چیزیں بیچتے ہیں ، اس نئے بھکاری طریقے کا تجربہ ہمارے ہم سفر منور احمد ، محمد ارشد کے ساتھ ہوا کہ ایک دن یہ دونوں ساتھی شام کے وقت ایک بازار کی ایک گلی سے گذر رہے تھے کہ ان کے سامنے بڑی عمر کی ایک عورت آ گئ ، جس کی ظاہری حالت انتہائی خست حال تھی ، اس عورت کے اردگرد کچھ دوسرے بھکاری اپنے ہاتھوں میں پھول ، روز مرہ زندگی استعمال کی چیزیں بیچنے میں مصروف تھے ، اس عورت کی اس حالت کو دیکھ کر ہمارے دوست نے اس کی مدد کی ، اس کو اسی وقت 400 بھات, (مقامی کرنسی) اس کو دے دئیے، اس عورت نے 400 لے کر گردن ہلا کر انگریزی میں ان دوستوں کا شکریہ ادا کیا ، اور اگلی گلی کی طرف نکل گئی ، چند گھنٹوں کے بعد منور احمد، محمد ارشد گھومتے گھومتے ایک ایسی گلی میں اتفاقیہ پہنچ گئے ،جہاں پر وہی خستہ حال عورت اپنی 2 دوسری خواتین ساتھیوں کے ساتھ گلی میں گھروں کے سامنے بنے ہوئے ایک تھڑے پر تھائی کرنسی کے بنڈل بنا بنا کر ایک پرانے تکیہ کے اندر ڈالی جا رہی تھی ، دونوں دوست یہ منظر دیکھ کر سکتے میں آگئے کہ یہ کیا ہورہا ہے ، کہ ایک طرف یہی خواتین کچھ دیر پہلے دوسرے ممالک سے آئے ہوئے سیاحوں کے سامنے اپنی غربت ، بے روزگاری کا رونا رو رہی تھی، جبکہ صرف 2 ، 3 گھنٹے کے بعد یہی خواتین نوٹوں کے بنڈلز گن رہی ہیں ، جیسے ہی ان عورتوں نے ان 2 آدمیوں کو دیکھا ، تو پھر وہ ان کے سامنے آ گئ کہ وہ بہت بھوکی ہیں ، اس لیے ان کی کچھ مدد کی جائے ، دونوں دوستوں نے ان سے سوال کیا کہ ابھی چند گھنٹے پہلے ہم نے آپ کو 400 بھات دئیے ، اور یہ کیا ہو رہا ہے ، ہمارے دوستوں کی یہ بات سننے کی دیر تھی کہ اچانک بڑی تیزی سے یہ خواتین دوسری گلی کی طرف بھاگ کر غائب ہوگئ ، ہمارے دوست یہ منظر دیکھ کر حیران پریشان رہ گئے کہ کس طرح لوگ غربت کا لبادہ اوڑھ کر سیاحوں سے دھوکہ کر جاتے ہیں ، بعد میں مقامی لوگوں سے معلومات حاصل کرنے کے بعد یہ راز کھلا کہ کچھ پیش ور بھکاری ، کچھ جرائم پیشہ لوگ اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں ، جن پر قابو پانے کے لیے مقامی حکومت ، مقامی پولیس سخت اقدامات کر رہی –

تھائی لینڈ مغربی کلونیل طاقتوں ، برطانیہ، فرانس، پرتگال، اسپین یا ہالینڈ کے ہاں کبھی بھی محکوم نہیں رہا ، اسی وجہ سے اس ملک کے 94 % لوگ اپنے پرانے مذہب بدھ مذہب کے پیروکار ہیں ، 5 % لوگ مسلمان ، 1 % ہندو، عیسائی اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں ، ملک کے کچھ اضلاع میں مسلمانوں کی 30 % آبادی ہیں ، جیسے پوکھت ضلع میں، اس ضلع میں ملائشین نسل کے زیادہ مسلمان رہتے ہیں ، مسلمان خواتین مردوں کے شانہ بشانہ محنت مزدوری کرتی ہیں ، مسلمان خواتین سروں پر اسکارف پہنے ہوئے مختلف شعبوں میں کام کرتی نظر آئیں گی، ائرپورٹ، میڈیکل اسٹور، منی ایکسچینج، جنرل اسٹورز پر ، حتی کہ مسلمان خواتین سکارف پہنے موٹر بائیک بھی چلا رہی ہوتی ہیں ، کوئی کسی کو مذہب کی وجہ سے تعصب نہیں برتتا، اس کی سب سے بڑی مثال اس وقت ہم نے دیکھی کہ ایک دن مسلمانوں کے علاقے سے گذرتے وقت دیکھا کہ ایک بڑی سڑک کی چھوٹی گلی میں پچھلی سائڈ پر محلے کی ایک مسجد آباد ہے ، جہاں مقامی لوگ 5 نمازیں اور جمعہ ادا کرتے ہیں ، جبکہ اسی مسجد کی اگلی سائڈ پر ساتھ والی عمارت میں ایک مساج پالر سنٹر ہے ، جس میں زیادہ تر مقامی بدھ مذہب خواتین کام کر رہی ہیں ، اس مساج سنٹر کے سائن بورڈز پر مختلف قسم کی مالش کرانے کا وقت اور قیمت لکھی ہوئی تھی، جیسے کمر ، سر ، پاوں، بازو، کندھوں کی مالش وغیرہ ، ملکی سخت قوانین ہونے کی وجہ سے اور صدیوں سے کثیرالثقافتی معاشرے میں رہنے سے ملک کے دونوں بڑے مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے کے ساتھ امن و سکون سے زندگی بسر کر رہے ہیں –

قارئین پوکھت میں ہر سال لاکھوں سیاح آنے ، شرح تعلیم 98 % ہونے ، سکولوں میں پرائمری سکول سے انگریزی مضمون پڑھانے کے باوجود سیاحوں کو مقامی آبادی سے انگریزی میں کمونیئکئٹ کرنے میں کافی دشواری ہوتی ہے ، کیونکہ مقامی لوگ دوسرے ممالک کی زبان سیکھنے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں ، ساتھ ہی تھائی زبان کی پرونائینس ایسی ہے کہ انگریزی زبان کے کسی بھی فقرے میں مقامی لوگ کچھ الفاظ پرونائینس کی وجہ سے پورے نہیں ادا کرتے ، جس سے سننے والے آدمی کو ان کی بات سمجھنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، جبکہ دوسری طرف دوسرے ممالک سے آدھی صدی سے زائد رہنے والے تارکین وطن جیسے ملائیشیائن، برمی، نیپالی انگریزی میں بات چیت بڑی آسانی سے کرتے ہیں ، ان تارکین وطن کی ان صلاحیتوں کی وجہ سے بازاروں، شاپنگ سنٹروں، ریسٹورینٹ میں ان لوگوں کی کثیر تعداد کام کر ہی ہے ، ٹرانسپورٹ ، ہلیتھ کئیر ، سرکاری اداروں میں زیادہ طرح تھائی لوگ کام کرتے دکھائی دیتے ہیں ، تعمیراتی کاموں، مچھلی کو صاف کرنے میں کمبوڈیا ، لائوس کے تارکین وطن کی اکثریت ہے – دوسری طرف بھارت ، چین کے معاشی حالات بہتر ہونے سے ، ان ممالک کے مڈل کلاس طبقے کی قوت خرید بڑھ گئی ہے ، جس کی وجہ سے سالانہ لاکھوں چینی اور بھارتی سیاح پوکھت جزیرے میں اپنی چھٹیاں منانا آتے ہیں ، چینی اور بھارتی سیاحوں کی اتنی زیادہ تعداد کو دیکھتے ہوئے چینی ، بھارتی کاروباری لوگ ضلع پوکھت اور اس کے اردگرد علاقوں میں مختلف سیکٹرز میں بڑی سرمایہ کاری کررہے ہیں –

20 گھنٹے کا مسلسل سفر ، 11 گھنٹے کی مسلسل فلائٹ ، پھر 2 گھنٹے کی ڈومیسٹیک فلائٹ کے سفر کا پروگرام بناتے وقت ہمارے ٹور منجیمٹ سے یہ غلطی ہوگئ کہ فلائٹ میں حلال کھانا حاصل کرنے کے لیےانٹرنیٹ پر ٹکٹس بک کراتے وقت گوشت نہ کھانے کے آپشن کو اوکے کر دیا ، کیونکہ تھائی ایئر کی الیکٹرونس پورٹل پر حلال کھانے کا آپشن نہیں تھا، جس کی وجہ سے ہمیں دوران ہوائی سفر صرف سبزیاں ہی دی گئی ، جس پر زیادہ تر دوست نا خوش تھے ، اس سلسلے میں جب تھائی ائیر کے گراونڈ عملے سے بات کی گئ تو انہوں نے کہا آپ جب بھی تھائی ائیر سے ٹکٹیں بک کرائے تو اس وقت مینول ٹیلیفون کال کر حلال فوڈ کی بکنگ کروا لے پھر آپ کوگوشت ، مچھلی اور دوسرا حلال کھانا دوران سفر ملے گا –

پوکھت کا سفر کرتے وقت 3 کام ضرور کریں جس سے آپ اس سفر سے صحیح لطف اندوز ہو سکتے ہیں-

بدھ مذہب کی نشانی بدھا مجسمہ جو پوکھت شہر کے عین وسط میں ایک پہاڑ پر بنایا گیا ہے ، جس کی اونچائی 45 میٹر ہے ، اس کی چوڑائی 25 میٹر سے اوپر ہے ، اس بدھا مجسمے کو دیکھنے کے بعد انسان سوچتا ہے کہ کس طرح انسان کی تخلیق کس طرح خدا کے تصور کو اجاگر کرتی ہے –

جیمز بانڈ راجر مور کی 1974 میں ریلیز ہونے والی فلم دی گولڈن گن پوکھت کے جزیرے کے ایک طرف بنائی گئ تھی جہاں پر جیمز بانڈ اپنے جہاز کو پانی میں اتارنے کے ساتھ اس جہاز کو پانی کے کنارے پر کھڑا کر کے قریب پہاڑ کے اندر مینٹگ روم میں چلا جاتا ہے ، اب اس جگہ کو مقامی حکومت نے ٹورسٹ اسپاٹ بنادیا ہے ، جسے لاکھوں لوگ سالانہ دیکھنے جاتے ہیں –

آخر میں جب بھی آپ کا پوکھت جانے کا پروگرام بنے تو ایک آدھ دفعہ موٹربائیک ٹیکسی پر ضرور سفر کریں ، اس سے ایک آپ کم قیمت، کم وقت پر زیادہ علاقے دیکھ سکتے ہیں اور ساتھ ہی مقامی متوسط طبقےکے رہن سہن کے بارے میں مفید معلومات حاصل کر سکتے ہیں –

Recommended For You

Leave a Comment