تیل کی آمدن ، فروغ آمرانہ طرز حکومت ؟؟؟

(تحریر ، محمد طارق )

دنیا میں تیل، گیس پیدا کرنے والے زیادہ تر ممالک میں آمرانہ نظام حکومت اور انتہا درجے کی کرپشن ، صرف چند ایسے ممالک ہیں جو تیل ، گیس کے بڑے ذخائر بھی رکھتے ہیں اور اپنے شہریوں کو ہر قسم کی آزادی دینے کے ساتھ ساتھ زندگی کی ہر سہولت ان کو احسن طریقے سے بہم پہنچا رہے ہیں –

دنیا کی بڑی بڑی علم گاہوں میں معاشیات ، سماجیات، شماریات پر تحقیق کرنے والے دانشوروں کے مطابق قدرتی وسائل سے آمدن حاصل کرنے والے زیادہ تر ممالک میں مخصوص جتھوں ، مخصوص طبقات کی حکومت ہے ، جس میں ان ممالک کے عام شہریوں کا حکومتیں بنانے، حکومتی فیصلہ سازی میں شریک ہونے میں نہ کوئی کردار ہے ، نہ کوئی اختیار ہے ، حالانکہ قوانین قدرت کے مطابق کسی بھی ملک میں پیدا ہونے والا شہری اس ملک کے قدرتی وسائل اور قدرتی وسائل سے ہونے والی آمدن میں برابر کا شریک کار ہونا چاہیے، مگر بدقسمتی سے تیل کے ذخائر کی آمدن سے آمر حکومتیں، بادشاہتیں مزید طاقتور ، امیر ہوتی جارہی ہیں ، جس سے ان ممالک کی 90 % آبادی غریب سے غریب تر ہوتی جارہی ہے ، ان ممالک کی عام آبادی قدرتی وسائل میں شرکت داری کے باوجود آج کے دور کی ہر بنیادی سہولت سے محروم –

انہی ایشوز کو دیکھتے ہوئے انسانی حقوق پر کام کرنے والے دانشوروں ، تھنک ٹینکس نے اب یہ سوال اٹھانا شروع کردیا ہے کہ آیا قدرتی وسائل تیل ، گیس کسی ملک میں مکمل سماجی ، معاشی مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں کہ نہیں ؟ یا دنیا کے کسی بھی ملک کے قدرتی وسائل سے مالامال ہونے والے مخصوص طبقے کو اقتدارتی قبضے سے کس طرح دور رکھا جائے ، اور بین الاقوامی لیول پر ایک ایسا قانون بنایا جائے جس سے اس ملک کو اس وقت تک ان قدرتی وسائل سے استفادہ نہ ہونے دیا جب تک اس ملک کی حکومت فارمیشن اور حکومتی فیصلوں میں عام شہریوں کی شرکت یقینی نہ ہو –

قدرتی وسائل تیل ، گیس سے آمرانہ اور ظالمانہ نظام کے فروغ کا اندازہ افریقہ، لاطینی امریکہ، مڈل ایسٹ میں شہریوں کےحقوق پر قدغن ، انسانی بنیادی ضروریات میں کمی اور عام آدمی کی ملکی معاشی ترقی میں کم حصہ داری سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے –

تیل کی آمدن سے آمرانہ اور ظالمانہ نظام کے فروغ کی مثال آپ ملک انگولا میں بڑھتی ہوئی معاشی ترقی سے دیکھ سکتے ، جہاں پر دنیا کے ہر کونے سے تیل کمپنیاں انگولا میں تیل نکالنے ، تیل ریفائن کرنے کے بزنس میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہی ہیں ، انگولا میں تیل نکالنے کے لیے لائسنس حاصل کرنے کے لیے مغربی ممالک کی آئل کمپنیاں ، چینی کمپنیاں انگولن حکومت کو بڑی رشوت دینے سے بھی نہیں کتراتی ، تو دوسری طرف انگولا میں اجتماعی ملکی ادارے نہ ہونے ، کمزور قوانین ، کمزور احتسابی نظام ، کمزور میڈیا، جمہوریت اور جمہوری آزادیوں پر پابندیوں نے فوجی جنتا اور آمر صدر جوسو ایدا سانتوس کو ڈکٹیٹر حکومت کرنے کے مواقع فراہم کئے ہوئے ہیں ، ساتھ ہی صدر جوسوایدا سانتوس اپنے خاندان ، اپنے خیر خواہوں کے ساتھ ملک کے 98 % معاشی ذرائع پر قابض ، تیل و گیس کی آمدن سے انگولا چند سالوں میں براعظم افریقہ میں تیسری بڑی معیشت کے طور پر ابھرا، اس تیل معشیت کی وجہ سے انگولا کے 2 بڑے شہروں میں فلک اشگاف عمارتیں کھڑی ہونا شروع ہوگئی ہیں ، اتنی تیزی سے معاشی ترقی ہونے کے باوجود انگولا کی 75 % آبادی مسلسل غریب ، بلکہ عام لوگوں کی حالت یہ ہے کہ ملک کی 50 % آبادی تو دن میں 120 روپے سے بھی کم کمانے میں قاصر ، تو دوسری طرف انگولن صدر کی بیٹی ایسابل افریقہ کی سب سے امیر ترین خاتون قرار پائی ، تیل کی آمدن کی غیر منصفانہ تقسیم سے انگولا دنیا کے کرپٹ ترین ممالک کی پہلی 20 لسٹ سے 17 نمبر پر ہے ، معاشرے میں جمہوری اقدار ، اجتماعی فیصلہ سازی کا نام و نشان ہی نہیں –

انگولا کی طرح دنیا میں 11 اور ممالک بھی اسی طرح کے حالات رکھتے ہیں ، جہاں پر تیل کی آمدن کی وجہ سے ایک مخصوص طبقہ ظالمانہ طرز حکومت اپنائے ہوا ہے ، اسی طرز حکومت کو دیکھتے ہوئے انسانی حقوق ، انسانی آزادیوں پر تحقیق کرنے والے دانشور یہ کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ تیل ، گیس کی آمدن جمہوری طرز حکومت کے قیام، جمہوری روایات کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے – بلکہ تیل کی آمدن نے معاشروں میں نا انصافی ، عدم معاشی مساوات کو فروغ دیا ہے-

تیل ، گیس کی آمدن صرف ایک آدھ ملک میں عام شہریوں کی فلاح کے کام آسکی ، ان ممالک میں سے ایک ناروے ہے ، ناروے میں تیل 1960 کی دھائی کے آخری عشرے میں تیل کمپنیوں نے سمندر میں دریافت کیا ، ناروے کی حکومت کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ ناروے اپنی سمندری حدود میں تیل ، گیس کا کثیر ذخیرہ رکھتا ہے ، تو اسی وقت ناروے حکومت نے پہلے چند سال تیل نکالنے کا کام مکمل طور پر روک دیا ، سب سے پہلے ناروے حکومت اور نارویجین پارلیمان نے اس حقیقت کو جاننا کہ ناروے کے تیل کے ذخائر کسی ایک حکومت ، کسی بادشاہ ، کسی ایک پارٹی ، یا کسی ایک طبقے کی ملکیت نہیں ، بلکہ ناروے میں پیدا ہونے والا ہر شہری ان ذخائر کا مالک ہے ، اس لیے تیل کی آمدن کو مکمل مساوات سے معاشرے میں استعمال کرنے کے لیے قوانین بنائے ، کچھ قوانین کو ملکی آئین کا حصہ بنایا ، جب یہ قوانین مکمل طور پر تیار ھو گئے ، پھر ان قوانین کے تحت تیل کمپنیوں کو تیل ، گیس نکالنے کے لائسنس جاری کئے-
انہی قوانین ، مضبوط جمہوری روایات ، مضبوط حکومتی اجتماعی اداروں کی وجہ سے تیل کی آمدن نے نارویجین معاشرے میں بڑے مثبت سماجی ، معاشی ، معاشرتی اثرات مرتب کیے ، جس کی وجہ سے آج نارویجین طرز حکومت دوسرے ترقی یافتہ ، ترقی پذیر ممالک میں ایک ماڈل کی حثیت لیے ہوا ہے –

اوپر دئیے گئے دلائل اور معلومات سے یہ بات ثابت ہوگئ کہ کسی ملک کی ساری آبادی میں معاشی ذخائر و ذرائع بہت کم تبدیلی لاتے ہے ، بلکہ ملک اور معاشروں کی آبادیوں کی زندگیاں صرف انصاف ، مساوات ، مشاورت پر مبنی اجتماعی نظام سے تبدیل ہوتی ہیں –

Recommended For You

Leave a Comment