پہاڑ گاوستاتھپن کی داستان اپنی زبان سے

 

(تحریر محمد طارق)

گاوستاتھپن  ناروے کے ضلع تھیلے مارک کے پہاڑوں کے درمیان ایک اونچی چوٹی ہے جو سطح سمندر سے1883کی اونچائی پر واقع ہے – اس پہاڑ کے ٹاپ پر گرمیوں میں بھی ٹمپریچر نقطہ انجماد سے گر جاتاہے ، سردیوں میں ٹمپریچر منفی 25 تک ہوتا ہے ، گرمیوں میں مثبت 3 سے 12 مثبت تک رہتا ہے –
یہ ایک ایسی چوٹی ہے اگر موسم صاف ہے تو آپ اس چوٹی پر کھڑے ہوکر ناروے کا 1/6  یعنی 15 % زمینی حصہ دیکھ سکتے ہیں – یہ پہاڑ شہر رویکون سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ، رویکون وہ شہر ہے جسکے پہاڑوں میں بھاری پانی پایا جاتا ہے ، یہ وہ پانی ہے جو ایٹم بم بنانے کے استعمال ہوتا ہے ، دوسری جنگ عظیم میں جرمن نازی حکومت نے صرف بھاری پانی حاصل کرنے کے لیے اس شہر اور اس کے اردگرد پہاڑوں پر قبضہ کرنے کی بہت کوشش کی تھی –

گاوستا تھپن کی پہاڑی چوٹی اور اس کے پہاڑ گرمیوں، سردیوں میں مقامی ، عالمی سیاحوں میں بہت پاپولر ہیں، سردیوں میں اسکینگ، اسکیٹنگ کھیل کے شوقین اس پہاڑی سلسلے کا رخ کرتے ہیں، جبکہ گرمیوں میں کوپیمائی کرنے والے اور ہمارے جیسے پہاڑوں پر پیدل چلنے والے اس اونچائی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں –


ہم جب اس اونچے پہاڑ کو سر کرنے کی کوشش کررہے تھے جو سب سے چیز ہم نے نوٹ کی کہ صفر پوائنٹ (Start point سے  End point ) سے لیکر پہاڑ کی 1883 بلندی تک سارا راستہ ، سارا پہاڑ صاف ستھرا، کوئی کوڑا، کوئی گندگی ، کوئی پلاسٹک شاپر ، خالی پلاسٹک بوتل نظر نہیں آئی – حالانکہ پہاڑ پر جاتے اور آتے وقت کافی سیاح تھے ، ہر کوئی اگر کوئی چیز کھاتا، پیتا تو اس کا کوڑا (waste ) اپنے بیگ میں ڈال دیتا ، اور پہاڑ سے واپسی پر نیچے صفر پوائنٹ پر لگے بڑے ڈسٹ بن میں ڈال دیتے ، اس ڈسٹ بن کو دوسرے دن مقامی حکومت کے اہلکار خالی کر کے سارے کوڑے کو سنٹرل پوائنٹ پر منتقل کر دیتے – مزے کی بات کسی ایک جگہ بھی یہ نہیں لکھا ہوا تھا کہ کوڑا یہاں پھینکے، یا صفائی نصف ایمان ہے – ہر سیاح مقامی ہو یا دوسرے ممالک سے آیا ہو ترتیب سے کوڑے کو سنبھال رہے تھے – دوسری طرف اگر ہم اپنے رویے دیکھے تو ایسے پبلک مقامات پر خالی شاپرز، خالی بوتلوں بکھری ہوئی نظر آئیگی – بلکہ مجھے عمرے کے دوران شہر مکہ میں    غار حرا کی پہاڑی پر جانے کا اتفاق ہوا تو اس مقدس جگہ پر بھی ہر طرف خالی پلاسٹک شاپرز،  خالی پلاسٹک بوتلیں ہی بوتلیں نظر آئی ، پہاڑی پر یا اس کے اردگرد کہیں بھی ڈسٹ بن نظر نہیں آئی ، ساتھ ہی غار حرا کے زیارت کرنے والے بھی اپنے کوڑے کو ساتھ نیچے لے جانے کی بجائے وہاں ہی کھلی پہاڑی پر پھینکے جارہے تھے – اب معلوم نہیں یہ ہماری تربیت کی کمی ہے یا ہمارے رویے ایسے ہی ہیں –




جب ہم پہاڑ پر چڑھ رہے تھے تو پتھریلا ، نوکیلے پتھروں سے لیس مشکل راستہ ہونے کی وجہ سے ایک 60 سالہ نارویجین خاتون پتھروں پر گر گئی ، جس کی وجہ سے اس کا بائیں بازو کو شدت سے تکلیف ہونا شروع ہوگئی اور وہ چلنے کے قابل نہیں رہے ، اس کے ساتھ آنے والے لوگوں نے کوشش کی کہ یہ عورت چل سکے لیکن وہ اپنی کوشش میں ناکام رہے ، آخر میں انہوں نے مقامی حکومتی  ہسپتال میں فون کیا ، صرف 20 منٹ کے بعد ایک ایمبولنس   ہیلی کاپٹر پہاڑ میں اس عورت کے پاس پہنچ گیا، کیونکہ زمینی سڑک نہ ہونے کی وجہ سے ایمبولنس ہیلی کاپٹر کے علاوہ اور کوئی حل نہ تھا- ہمارے دیکھتے دیکھتے ہی صرف 35 منٹ کے آپریشن میں ہیلی کاپٹر اس عورت کو ہسپتال لے کر چلا گیا – اس واقعے سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد مل ملتی ہے کہ کس طرح فلاحی ریاست فنکشن کرتی ہے ، جہاں پر جب شہری پورا ٹیکس دیتے ہیں  تو ان کو ہر وقت کسی بھی ناگہانی صورتحال میں ہر بنیادی اجتماعی سہولت میسر ہوتی ہے –

انتظامی ، جغرافیائی طور پر ناروے 19 بڑے اضلاع میں تقسیم ہے ، ہر ضلع سیاسی و معاشی طور پر آذاد ہے –
بلدیاتی جمہوری نظام مکمل طور پر پر نافذ ہے – ہر ضلع، ہر تحصیل، ہر یونین کونسل کی حکومت انتخابات کے ذریعے جمہوری طریقے سے منتخب ہوتی ہے ، ہر سطح کی لوکل حکومت اپنے لوکل مسائل خود حل کرتے ہیں، لوکل بجٹ منتخب نمائندے بناتے ہیں، لوکل اجتماعی اخراجات لوکل حکومتی آمدن سے پورے کیے جاتے ہیں، لوکل حکومتیں  لوکل علاقے کے قومی ایشوز قومی حکومت سے مل کر حل کرتے ہیں –




Recommended For You

Leave a Comment