ناروے: مہذب دنیا ہم مظلوم کشمیریوں کی مدد کرے، پروینا آھنگر اور پرویز امروز کا مطالبہ

This slideshow requires JavaScript.

برگن، ناروے: مقبوضہ کشمیرسے تعلق رکھنے والی دو عالمی شہرت یافتہ انسانی حقوق کی علمبردار شخصیات پروینا آھنگر اور پرویز امروز ایڈوکیٹ نے مہذب دنیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مظلوم کشمیریوں پر مظالم بند کروانے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔

وہ ناروے کے شہر برگن میں کشمیر پر ایک عالمی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے جس کا اہتمام انسانی حقوق کی معروف بین الاقوامی تنظیم ’’رفتو فاونڈیشن‘‘ نے کیاتھا۔ یادرہے کہ اس تنظیم نے ان شخصیات کو اپنے سالانہ ایوارڈ کے لیے نامزد کیا ہے جو نوبل امن انعام کے بعد ناروے کا دوسرا بڑا ایوارڈ ہے۔ یہ ایوارڈ انہیں اتوار کی شام برگن میں ایک پروقار تقریب کے دوران دیا جائے گا۔

پروینا آھنگر جو مقبوضہ کشمیر میں گم شدہ بچوں کے والدین کی تنظیم ’’اے پی ڈی پی‘‘ کی بانی رہنما ہیں، نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے فرط جذبات کو روک نہ سکیں اوران کی اشک بار آنکھوں نے حاضرین کی چشم بھی پر نم کردیں۔

انھوں نے کہاکہ ہم کافی عرصے سے کشمیر میں بھارتی افواج کے ظلم و بربریت کے خلاف چیخ و پکار کررہے ہیں لیکن ہماری کوئی آواز سن نہیں رہاتھا۔ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ہمیں کسی نے ایک بین الاقوامی فورم پر دعوت دی ہے جس ہم ’’رفتو فاونڈیشن‘‘ کے شکرگزار ہیں۔

پروینا آھنگر نے کہاکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہم پر ظلم و ستم بند کیا جائے اور ہمیں ہمارے حقوق دیئے جائیں۔ ہمارے گم شدہ بچوں کو بازیاب کروایا جائے اور ہم پر ظلم و ستم کرنے والوں کو سزا دی جائے۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پرویز امروز ایڈوکیٹ جو جموں و کشمیر سول سوسائٹی کے اتحاد ’’جے کے سی سی ایس‘‘ کے صدر ہیں، نے کہاکہ آٹھ ہزار افراد مقبوضہ کشمیر میں لاپتہ ہیں جن کے والدین اور لواحقین کو ان کی کوئی خبر نہیں۔ وہ ان کے بارے میں بار بار پوچھتے ہیں لیکن کوئی جواب دینے والا نہیں۔ انھوں نے مقبوضہ کشمیرکی صورتحال پر مزید بات کرتے ہوئے کہ بھارتی رویئے اور موجودہ صورتحال سے لگتا ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے تیار نہیں۔

انھوں نے کہاکہ بھارت نے سات لاکھ فوج کشمیریوں پر دباو رکھنے کے لیے مقبوضہ کشمیرمیں تعینات کی ہوئی ہے۔ اس فوج کا مقصد عسکریت پسندوں سے لڑنا نہیں کیونکہ بعض اعداد و شمار کے مطابق، عسکریت پسندوں کی کل تعداد صرف دوسو کے لگ بھگ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و زیادتی کے حوالے سے بھارت کو جواب دینا ہوگا۔ اسے کشمیرسے فوجیں واپس بلانے چاہیے۔

کانفرنس کے اختتامی مرحلے میں سوالات کے جوابات دیتے ہوئے پروینا آھنگر نے کہاکہ اب کشمیریوں کے اندر سے خوف ختم ہوگیا ہے۔ وہ بھارتی افواج سے ہرگز نہیں ڈرتے۔ پرویز امروز نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ہمارے ساتھ بھارت کا رویہ انتہائی ظالمانہ ہے اور اس صورتحال میں کوئی مستقبل قریب میں مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی کوئی امید نہیں۔

کانفرنس سے امریکی یونیورسٹی آنڈیانہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر مونا بھن، برطانیہ کی یونیورسٹی برسٹل کی سینئرلیکچرر ڈاکٹر ایما برانلونڈ، اوھیو یونیورسٹی امریکہ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ھالے دوسچیکی اور یونیورسٹی آف وارویک برطانیہ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر گولدی اوسوری نے خطاب کیا۔

مقررین نے کشمیرکے تمام سیاسی، تاریخی، ثقافتی اور سماجی پہلووں پر روشنی ڈالی اور اس بات پر زور دیا کہ ابتک کشمیر انتہائی نظرانداز شدہ مسئلہ ہے جس پر توجہ کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہاکہ پروینا آھنگر اور پرویز امروز کے لیے ’’رفتو فاونڈیشن‘‘ کے ایوارڈ سے اس مسئلے پرعالمی سطح پر ایک بار پھر اجاگر کرنے میں مدد ملے گی۔ دنیا اس مسئلے کی حساسیت کو سمجھے گی اور اس سے اس کے پرامن حل کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

پروینا آھنگر اور پرویز امروز کو رفتو فاونڈیشن کا ایوارڈ مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف طویل جدوجہد پر دیاجا رہا ہے۔ پروینہ آہنگرکشمیرکی خاتون آھن کے نام سے بھی معروف ہیں۔ انھوں نے نوے کی دہائی کے اوائل میں اپنے سترہ سالہ بیٹے کے سیکورٹی فورسزکے ہاتھوں اغوا کئے جانے کے بعد یہ جدوجہد شروع کی تھی۔

یہ وہ بہادر کشمیری خاتون ہیں، جنھوں نے مقبوضہ کشمیرمیں لاپتہ افراد کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف مسنگ پرسنز بنائی اور لاپتہ افراد کی تلاش شروع کی،تاہم اس جدوجہد میں انہیں ابھی تک اپنے بیٹے کا کوئی سراغ نہیں ملا اور اس کو وہ اب تک تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں ۔

امروز پرویز پیشے کے اعتبار سے قانون دان ہیں، انھوں نے جموں وکشمیرسول سوسائٹی کا اتحاد بنایا تاکہ انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرسکیں۔ اس تنظیم نے ابتک مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ریاستی تشدد اور ریاستی دہشت گردی کا ریکارڈ مرتب کیا ہے۔

کانفرنس میں شریک ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی خاتون علمبردار ماریان لوکس جو مقبوضہ کشمیرمیں جاکر وہاں کے حالات پر رپورٹ مرتب کرچکی ہیں، نے امید ظاہر کی کہ اس ایوارڈ کشمیریوں کے حقوق کو مزید اجاگر کیا جاسکے گا۔ انھوں نے کہاکہ عالمی سطح پر اس بات تسلیم کرنا کہ کشمیرمیں ظلم ہورہاہے، بہت اہمیت کی حامل بات ہے۔

کانفرنس کے دوران کشمیرکونسل ای یو کے چیئرمین علی رضا سید جو خصوصی طور پر اس کانفرنس میں شریک ہوئے ہیں، کا کہنا تھا کہ پروین آہنگر اور امروز پرویز دونوں ہی ایک لمبے عرصے بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں۔ وہ مکالمے کے عمل کو فروغ دے رہے ہیں اور مسئلہ کشمیرکے پرامن حل کے لیے کوشاں ہیں ،ان کی کوششیں نئی نسل میں مقبولیت حاصل کررہی ہیں۔

علی رضا سید نے مزید کہاکہ ہمیں اس ایوارڈ کے اثرات اور اس کی اہمیت کا سمجھنا چاہیے اور اس طرح کے مواقع کو نظرانداز نہیں کیاجانا چاہیے۔ یہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر موثر طریقے سے اجاگر کرنے کا بھرپور موقع ہے جس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیاجانا چاہیے۔

کشمیرسکینڈے نیوین کونسل ناروے کے سربراہ سردار علی شاہنوازخان جو کانفرنس میں اپنی تنظیم کی نمائندگی کررہے تھے، نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہاکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بعد مسئلہ کشمیرکے حوالے سے یہ دوسری بڑی کامیابی ہے۔ اس سے مسئلہ کشمیر ایک بار پھر اجاگر ہوا ہے۔ 

ناروے میں پاکستان کی سفیر رفعت مسعود جو رفتو ایوارڈ کی تقریبات میں شرکت کرکے لیے برگن آئیں تھیں، نے کہاکہ مظلوم کشمیریوں کی آواز کا عالمی سطح پر سنا گیا ہے اور اب اس پر مزید کام کی ضرورت ہے۔ یورپی تنظیم کی جانب سے ایوارڈ دینے سے مقبوضہ کشمیرکے حالات کے بارے میں دنیا میں مزید آگاہی پیدا ہوگی۔

بیس ہزاریورو کے رقم کے ساتھ یہ ایوارڈ ناروے کے شہر برگن میں پانچ نومبر کو دیا جارہاہے۔




Recommended For You

Leave a Comment