اسلامک کونسل ناروے کا انتظامی بحران جاری

Islamic Council Norway
تحریر: طارق محمد
آجکل ناروے کی ہر مسجد ، مذہبی ادارے میں محرم الحرم کی مجالس و محافل بڑے جوش و  عقیدت سے منائی جا رہی ہیں۔  
مسجد کے ممبر پر ہر عالم جوش خطابت میں مسلمانوں کی تاریخ کے سنہری ادوار گردانتا ہے – یہ الفاظ سن کر ان اجتماعات میں بیٹھا ہر شخص گردن ہلا ہلا کر ، ہاتھ اونچے کر کے اپنے شاندار ماضی کو اور عالم کی صلاحیتوں کو  داد دے رہاہوتاہے۔
لیکن بدقسمتی سے دین کا جو سب سے بڑا پیغام ہے کہ ایک ہی پلیٹ فارم پر مل جل کر آگے بڑھنا ، دوسرے کے لیے قربانی دینا، کسی بھی موقع پر اپنی ذاتی مفادات کی قربانی دینا جیسے موضوعات پر کم ہی بات کی جاتی ہے
 –ناروے میں بھی ایسا ہورہاہے اور یہی وجہ ہے کہ آج اجتماعیت پر کم توجہ کی بدولت ناروے میں مسلمانوں کا ایک پلیٹ فارم اسلامک کونسل ناوے ٹکڑوں میں تقسیم ہونا شروع ہوگئی ہے۔
اس کی خبریں ناروے کے اخبار ، ریڈیو ، ٹیلیویژن نے اپنی شہ سرخیوں میں شائع  یا نشر کی کیں۔
اختلافات کی وجہ سے سب سے پہلے جس ادار ے اسلامک کونسل ناروے کی ممبر شب سے دستبرداری کا اعلان کیا وہ بوسنیا اور عرب لوگوں کی کچھ مساجد ہیں۔
اب خبریں آرہی ہیں کہ پاکستانی بڑی مساجد اور صومالیہ مساجد بھی اسلامک کونسل ناروے سے اپنے آپ کو علیحدہ کریں گی۔




 
اسلامک کونسل ناروے کے انتظامی معاملات کو مختلف ثالثوں نے حل کرنے کی کوششیں کی گئ ، لیکن اسلام کے مجاہدوں کی
ضدبازی ، آنا پرستی، جمہوری انتظامی ڈھانچے کی کم علمی کی وجہ سے اسلامک کونسل ناروے کو تقسیم کرکے ہی دم لیا ہے۔ 
اسلامک کونسل ناروے کے انتظامی ڈھانچے پر 2015 سے اختلاف شروع ہوئے – جو جو مساجد اسلامک کونسل ناروے سے علحیدگی اختیار کر رہی ہیں، ان کا بڑا موقف یہ ہے کہ اسلامک کونسل ناروے اپنے بنیادی مقصد، یعنی کثیرالثقافتی مذاہب معاشرے میں اسلام کا ایک سافٹ لبرل امیج پیش کرنا اور ڈائیلاگ کو فروغ دینا تھا ، لیکن اسلامک کونسل ناروے کی موجودہ انتظامیہ اس بنیادی مقصد سے ہٹ کر ایک نارویجین معاشرے میں مذہب بنیاد پرست رحجان کو پروموٹ کرنا شروع ہوگئی، ڈائلاگ کی پالیسی کو خیرباد کہتے ہوئے ایک کنفلکٹ جارحانہ پالیسی اختیار کی ، ساتھ ہی لبیرمارکیٹ میں مسلمان خواتین کے ساتھ کچھ جگہ تعصب ہونے پر آواز اٹھانا شروع کی ، جو دراصل اسلامک کونسل ناروے کے ڈومین میں نہیں آتا، بلکہ پہلے ہی ایسے ایشوز پر نارویجین لبیر یونینینر اور دوسرے سرکاری و غیر سرکاری ادارے کام کرہے ہیں – تیسرا بڑا اعتراض ان باہر نکلنے والی مساجد کا تھا کہ اسلامک کونسل ناروے کے موجودہ پیڈ جنرل سیکریٹری اپنا کام صیح انجام نہیں دے رہے ، وہ بجائے کونسل کے دفتر ی معاملات پر فوکس رکھنے کے مختلف مساجد کی انتظامیہ کے ساتھ اپنی پی آر بنانے میں مصروف ہوگئے ، جب ان سے اس بارے میں پوچھ گچھ شروع کی گئی اور سابق اسلامک کونسل ناروے کی انتظامیہ نے ان کو جنرل سیکریٹری کے عہدے سے دستبردار کرنے کی کوشش کی گئی ، تو جنرل سیکریٹری کی پی آر کی کوششیں کونسل کی سالانہ ممبر اسمبلی میں مددگار ثابت ہوئی ، جس سے جنرل سیکریٹری صاحب اپنی ڈیوٹی بچانے میں کامیاب ہوگئے، تو دوسری طرف سابق انتظامیہ کو اپنے عہدوں سے استعفی دینا پڑ گیا –
 موجودہ اسلامک کونسل ناروے ناروے کی انتظامیہ کا یہ موقف ہے کہ ہمارے پاس جمہوری اکثریت ہے ، ہمارے خیال میں موجود جنرل سیکریٹری ٹھیک کام کررہے ہیں ، اس لیے ان کو اس عہدے سے فارغ کرنا درست نہیں – اس لیے اگر کسی کو کوئی اعتراض ہے تو وہ جمہوری طریقے سے اسلامک کونسل ناروے کی انتظامیہ میں آجائے اور جس طرح کا کام کرنا چاہتا ہے کرے – ہمارے خیال میں اس موجودہ صورتحال میں جب مساجد اسلامک کونسل ناروے سے علحیدگی اختیار کر رہی ہیں تو موجودہ انتظامیہ کو لچک دیکھانی چاہئیے، ساتھ ہئ اسلام کے اجتماعی نظام کو نقصان ہونا شروع ہوگیا ہے ، تو ضروری ہے کہ کسی دوسرے کو جنرل سیکریٹری کی پوسٹ پر تعینات کیا جائے، اور اسلامک کونسل ناروے کی ممبر مساجد سے دوبارہ بات چیت شروع کرکے علحیدگی کرنے والی مساجد کو واپس اجتماعی پلیٹ فارم پر لایا جائے، تاکہ مسلمان ٹکڑوں میں تقسیم نہ ہونے دیا جائے۔
 

Recommended For You

Leave a Comment