نوازشریف کی نااہلی کے بعد وزیراعظم آزادکشمیرراجہ فاروق حیدر خبروں میں

تحریر: سید سبطین شاہ

گذشتہ جمعہ کے روز وزیراعظم پاکستان محمد نوازشریف کی نااہلی اور سبکدوشی کے بعد جہاں پورا ملک ہی افراتفری اور سیاسی کشمکش کا شکارہوگیاہے ، وہاں وزیراعظم آزاد کشمیرکے پریس کانفرنس نے بھی ہلچل مچادی ہے۔ یہ پریس کانفرنس انھوں نے اس عدالتی فیصلے کے ایک دن بعد گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کے ہمراہ کی۔ راجہ فاروق حیدر خان کے ساتھ ان کے وزیراطلاعات اور سابق صحافی مشتاق منہاس بھی تشریف فرماتھے۔اگرچہ وزیراعظم آزادکشمیرنے اپنی پریس کانفرنس میں الحاق کالفظ استعمال نہیں کیالیکن بعض اخبارات نے الحاق کا لفظ استعمال کرکے ان کے بیان کو متنازعہ بنادیاہے۔ ایک اخبار نے اپنے نامہ نگاراور بعض خبررساں اداروں کے حوالوں سے کچھ اس طرح سرخی لگائی، ’’اب سوچیں گے کہ کس ملک سے الحاق کرناہے، وزیراعظم آزادکشمیر۔‘‘ یہ سرخی جس انداز سے لگائی کہ یہ ایک انتہائی خطرناک کام ہے۔ پھراحمقانہ طورپر یا پھر جان بوجھ کر پی ٹی آئی کے عہدیدارنے اس بیان پر بھارتی ٹی وی پر بے ہودہ اندازمیں تبصرہ کیا۔ پی ٹی آئی کے یہ صاحب بھارتی ٹی وی پر کہتے ہیں، ’’راجہ فاروق حیدر کی کسی بھی بات پر توجہ دینے کا قائل نہیں ہوں۔کیا پدی اور کیاپدی کا شوربا۔ ان کی اوقات، ان کی شکلیں، ان کے کرتوت۔ یہ بات کرتے ہیں کہ ہم کس سے الحاق کریں گے؟ ایک صوبدار میجران کو کان سے پکڑکر اقتدارسے اتارنے کی پوزیشن میں ہوتاہے۔ان کے اخلاق، ان کے کردار ، ان کے رویئے، ان کی ذہنیت آپ دیکھیں گے تو یہ کونسلر بننے کے لائق نہیں ہوتے جو آج وہ کشمیرکے وزیراعظم اور صدر بنے بیٹھے ہیں۔ میں خبردارکرتاہوں، ان کو کہ اپنی اوقات کے اندر رہو۔ اپنی حیثیت کے اندر رہو۔ اپنے پاجامے کے اندر رہو۔ جتنی تمہاری ذہنیت ہے۔ جتنی تمہاری حیثیت او رشہرت ہے، اس سے دائیں بائیں نہ ہوں۔‘‘ فیاض الحسن چوہان نے سو چ سمجھ کر بھارتی ٹی وی پر یہ بیان دیاہے یا پھراحمقانہ طورپرانھوں نے یہ بات کہہ دی ہے۔بعض اوقات یہ بھی ہوتاہے کہ انسان سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے اس طرح کی حرکت کربیٹھتاہے۔ اسے یہ احسا س نہیں ہوتاکہ اس کے اس فعل کا ردعمل کیاہوگا۔ ان کے اس تبصرے کے حوالے سے خاص طورپر یہ احساس ہورہا ہے کہ ان کے اس بیان میں کشمیریوں کی بھارت کے اندر تذلیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ تاثر دلانے کی سعی کی گئی ہے کہ آزادکشمیرکی حکومت کی کوئی حیثیت نہیں ۔ بھارتی میڈیاپریہ بتایاگیاہے کہ پاکستان کی فوج کا ایک صوبیدار میجر آزادکشمیرکے وزیراعظم یا صدر کو کان سے پکڑکر ذلیل و خوار کرکے اقتدار سے الگ کرسکتاہے۔دشمن ملک کے میڈیاپریہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستا ن میں فوج کتنی طاقتورہے کہ اس کا ایک معمولی جونیئرآفیسربھی وزیراعظم آزادکشمیر کو ذلیل کرکے اقتدار سے ہٹاسکتاہے۔




فیاض الحسن چوہان نے نہ دیکھا اور نہ سنااوربلاسوچے سمجھے، بغیر تحقیق کے، یہ بیان بھارتی ٹی وی پر دے دیا۔ پاکستان میں بہت سے سیاستدانوں کا یہ المیہ ہے کہ وہ نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی سوچتے ہیں ، بے دھڑک بیان دے دیتے ہیں۔ اگرچہ درست ہے کہ وزیراعظم آزادکشمیرکا متازعہ بیان اخبارات میں شائع ہوالیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس بیان پربغیرسوچے سمجھے ردعمل نے تمام کشمیریوں کے دلوں کو دکھ پہنچایاہے۔ کشمیریوں اور آزادکشمیر کی حکومت کے حوالے سے بیانات دیتے ہوئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ فیاض الحسن چوہان جیسے لوگوں پر یہ واضح ہوناچاہیے کہ کشمیری بغیر تنخواہ کے پاکستان کے محافظ ہیں۔ کشمیری نہ صرف مقبوضہ کشمیرمیں سات لاکھ بھارتی فوجوں کا سامناکررہے ہیں بلکہ کنٹرول لائن پر بھی پاکستان کے دفاع کی وجہ سے بھارتی گولہ باری کا نشانہ بنائے جاتے ہیں۔کشمیریوں کو حیثیت دکھانے والوں کو لگام دیناضروری ہے۔ کشمیری پاکستان کے ساتھ محبت رکھتے ہیں اور آج تک انھوں نے الحاق پاکستان کا نظریہ زندہ رکھاہواہے۔جہاں تک وزیراعظم آزادکشمیرکے بیان کو دیکھاجائے تو واقعاً اس بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر شائع کیاگیاہے بلکہ اس بیان کے حوالے سے اخبارات نے الحاق کا لفظ اپنی طرف سے شامل کیاہے۔ اگر وزیراعظم کشمیرکی پریس کانفرنس کو بغورملاحظہ کیاجائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ان کے الفاظ کیاتھے اور وہ بات انھوں نے کن سیاق و سباق میں کہی۔ وزیراعظم آزادکشمیرجن کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے، کا اعتراض وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کے عدالتی فیصلے پر تھا۔ اس لیے انھوں نے پریس کانفرنس کی۔یوں لگتاہے کہ ان کے بیان کو شاہداس لئے متازعہ بناکراچھالا گیاکیونکہ انھوں نے کہا، ’’نظریہ ضرورت کو زندہ کیاگیاہے۔مجھے بتائیں کہ یہ کون سا شفاف ٹرائل ہواہے کہ جس میں اپیل بھی نہیں۔یہ چیزیں تیارکی گئی تھیں۔اس فیصلے کے تحت جو بھی آئندہ وزیراعظم بنے گا ، وہ کٹھ پتلی وزیراعظم ہوگا۔جونہی وہ بنے گا، اس فیصلے کی تلوار اس کے سر پر لٹکتی رہے گی۔‘‘ راجہ فاروق حیدرنے ججوں پر بھی اعتراض کیا۔ وہ کہتے ہیں، ’’دو جج صاحبان نے جے آئی ٹی سے ہٹ کرپہلے ہی فیصلہ دے دیاتھا۔پہلے تین جج تھے اور پھر پانچ ہوگئے۔ یہ فیصلہ پہلے ہی کرلیاگیاتھا کہ نوازشریف کی گردن اتارنی ہی اتارنی ہے۔ اب یہ سوال اٹھتاہے کہ کیا وزیراعظم کو بنانے کا اختیار جمہور کے پاس ہے یا کمرہ عدالت کے اندرہے؟ میں یہ نہیں کہتاہے کہ جس نے کرپشن کی ہے ، اس کو سزا نہ ملے لیکن اس کا طریقہ کارمتعین اور واضح ہے۔ یہ جج صاحبان جو فیصلے دے رہے ہیں، کیا انھوں نے پرویزمشرف کے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایاہوا۔ اگر وزیراعظم صادق اور امین نہیں ہے تو باقی لوگوں پر بھی یہ بات آنی چاہیے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ایک شخص ملک کو آگے لے جارہاتھا، اس کو روک دیاگیاہے۔‘‘ اب راجہ فاروق حیدر جب عمران خان پر آئے تو زیادہ جذباتی ہوگئے ۔ خاص طورپر نوازشریف کی فیملی اور خصوصاً ان کی بیٹی پر تضحیک آمیز الزامات کا جواب دیتے ہوئے، وہ کہنے لگے، ’’ایک صاحب ہیں ، جن پر الزام ہے کہ وہ بغیر نکاح کے بچی کے باپ ہیں۔ طلاق فیڈریشن کے سربراہ ہیں، وہ دو بار طلاق دے چکے ہیں۔طلاق گناہ نہیں لیکن پیغمبراسلام (ص) نے اسے ایک برا فعل قرار دیاہے۔کیا وہ آئین کی شق 62اور63پر پورا اترتاہے۔ وہ کہتاہے کہ میں علامہ اقبال کا پاکستان بنارہاہوں۔ جو اس پر الزامات ہیں ،اس کو دیکھتے ہوئے کیاکہاجاسکتاہے کہ یہی ہے ، علامہ اقبال کاخواب، علامہ اقبال کا پاکستان؟ مجھے سوچنا پڑے گا، بحیثیت کشمیری کہ میں کس ملک کے ساتھ اپنی قسمتی کو جوڑوں، (یعنی اس ملک کے ساتھ جو عمران خان بنانے جارہاہے)۔ اگریہی ہے، قائداعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان؟ یعنی عجیب بات ہے ، اس ملک کے اندر لوگوں کو تقسیم کیاجارہاہے۔ کرائسس پیداکرنی کی کوشش کی جارہی ہے۔ہم اگر کرناچاہتے تو بہت کچھ کرسکتے تھے لیکن ہم جمہوری عمل کوختم نہیں ہونے دیں گے۔کل جو کچھ ہواہے ، وہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ ہم اس پر احتجاج کرتے ہیں۔‘‘ جب بعض اخبارات نے راجہ فاروق حیدر کے بیان کو اپنے انداز سے شائع کیاتو پھراگلے دن وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کے پاکستان کو نہیں مانتا۔ ’’وہ ذہنی اور شرعی طورپرایک آوارہ مزاج شخص ہے ۔ میں سارے کشمیرکو پاکستان اور سارے پاکستان کو کشمیرسمجھتاہوں۔میں جس ملک کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کیاہواہے، مجھے اس کے بارے میں تشویش ہے۔ پاکستان میرا ملک ہے ، مجھے پورا حق ہے، بولنے کا۔‘‘ یہ ہے ، راجہ فاروق حیدرکا اصل بیان اور اس پر وضاحت ، جس کو متنازعہ بناکر اچھالاگیا۔ اگر ان کی پریس کانفرنس کی ویڈیوکو غور سے سناجائے تو یہ واضح ہوتاہے کہ انھوں نے ، کچھ اس طرح بیان دیا، ’’مجھے سوچنا پڑے گا، بحیثیت کشمیری کہ میں کس ملک کے ساتھ اپنی قسمتی کو جوڑوں‘‘۔ اس کو کچھ اس طرح بھی سمجھا جاسکتاہے، ’’مجھے سوچنا پڑے گا، بحیثیت کشمیری کہ میں کس ملک کے ساتھ اپنی قسمتی کو جوڑے رہوں۔‘‘ اس بیان میں ایک پہلو واضح ہے کہ انھوں نے الحاق کا لفظ استعمال نہیں کیااور دوسرا یہ کہ اس بیان میں جذباتی پن زیادہ تھا۔ اگر اس جملے سے پہلے اور بعد کے جملوں کو دیکھاجائے تو مطلب سمجھ میں آجاتاہے کہ وہ یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ کشمیریوں کو معمولی نہ سمجھاجائے بلکہ ان کی بھی کوئی حیثیت اوراہمیت ہے۔ وزیراعظم آزادکشمیرکو یہاں’’ کشمیریوں کی قسمت کو کس ملک کے جوڑنے ‘‘ کے حوالے سے بات نہیں کرناچاہیے ۔وہ جلدی میں یہ بات کہہ گئے اور اسی نکتے کو اٹھاتے ہوئے ان کے بیان کوتوڑ موڑ دیاگیاجس کا نتیجہ یہ ہواکہ آج کو نشانہ بنایاجارہاہے۔ نوازشریف کا معاملہ ایک قومی سیاسی معاملہ تھا اور اس کا کشمیریوں کی قسمت اور پاکستان کے ساتھ وابستگی کا کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان میں کوئی بھی حکومت ہو، آزادکشمیرکے لوگ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، اس میں حکومتوں اورسیاسی وابستگیوں کا سوال ہی نہیں پیداہوتا۔ البتہ جہاں تک راجہ فاروق حیدر کے بیان کا ایشوہے ، وہ (وزیراعظم آزادکشمیر) ایک جذباتی اور صاف گو انسان ہیں، اس لئے انھوں نے عمران خان کے مستقبل کے پاکستان کے ردعمل میں یہ بات کہہ دی ۔راقم کو نہیں لگتاہے کہ ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ کشمیری الحاق پاکستان کے بارے میں نظرثانی کرسکتے ہیں۔کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ایسا کہنے سے خود ان کی اہمیت اور حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔اس لیے یہ واضح ہے کہ وہ خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں مارسکتے۔ ان کے متنازعہ بیان کی تردید اور وضاحت کے بعد اسے مزید متنازعہ بنانے اور ہنگامہ کھڑاکرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ خاص طورپر جس طرح بعض لوگوں نے اس بیان کو استعمال کرکے بھارتی میڈیا پرکشمیریوں کی اوقات اور حیثیت کو ناپنے کی کوشش کی ہے، یہ انتہائی احمقانہ اور بے ہودہ حرکت ہے۔ پاکستان اوراسلام کے کئی جعلی ٹھیکیداراوں نے جن میں اینکرز بھی ہیں، کسی سے پیچھے نہیں رہے اور انھوں نے راجہ فاروق حیدر کے بیان پر الٹاسیدھاتبصرہ کرتے ہوئے انہیں بے شمار نازیبا القابات سے نوازا ہے۔ ہم سب کو اس بات کا ادارک ہوناچاہیے کہ کشمیری بہت عظیم لوگ ہیں جنہیں ہم آج تک آزادی نہ دلواسکے لیکن وہ پاکستان کے لیے ابتک قربانیاں دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کشمیریوں کی آزادی کے خواب کوجلد از جلد تعبیردے۔ امین

 
 
 



Recommended For You

Leave a Comment