پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ سے سینئرپاکستانی صحافی و اوورسیزمیڈیا فورم کے کنوینئر سید سبطین شاہ کی ملاقات، پاکستان میں صحافیوں کے عدم تحفظ پر اظہار تشویش

This slideshow requires JavaScript.

وارسا (بیورو رپورٹ)
سینئر پاکستانی صحافی  و پاکستان اوورسیزمیڈیا فورم کے کنوینئر سید سبطین شاہ نے پاکستان فیڈرال یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یوجے) کے صدر افضل بٹ سے ملاقات کرکے پاکستان میں صحافیوں کے عدم تحفظ پر تشویش ظاہر کی۔ 
ملاقات کے دوران سید سبطین شاہ نے افضل بٹ سے آزادی صحافت اور صحافیوں کے تحفظ پر بات کی۔ افضل بٹ نے کہا کہ آزادی صحافت اور صحافیوں کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ سید سبطین شاہ اپنے ڈاکٹریٹ تحقیقی مقالے کے سلسلے میں  ان دنوں یورپ میں ہیں اور افضل بٹ بھی تنظیمی اور صحافتی مصروفیات کے حوالے سے مختصر دورے پر آج کل یورپ آئے ہوئے  ہیں۔ ملاقات میں چیف ایڈیٹر گجرات لینک امجد فاروق بھی موجود تھے۔
سید سبطین شاہ نے کہاکہ آزادی صحافت اور صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے پاکستان میں صورتحال خراب ہوتی جارہی ہے۔ اس کے سدباب کے لیے اقدامات ہونے چاہیں۔ افضل بٹ نے بتایاکہ گذشتہ چار پانچ سالوں سے مختلف بین الاقوامی صحافتی تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے رپورٹس آرہی ہیں کہ پاکستان صحافیوں کے لیے تین چار خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔  افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کی حکومت، اسٹبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کو اس بات کا ادراک نہیں کہ ملک میں صحافیوں کے ساتھ کیا ہورہاہے اور وہ کیونکر عدم تحفظ کا شکار ہیں؟
انھوں نے دی نیوز کے صحافی احمد نورانی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ احمد نورانی پر حملے کے حوالے سے ہماری پوزیشن بہت واضح ہے۔ یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے، جہاں انگلیاں اٹھ رہی ہیں، ان کی بھی ذمہ داری ہے، حکومت کی بھی ذمہ داری ہے۔ ہم نے اپنے طور پر پی ایف یو جے نے آر آئی یو جے کی سطح پر سینئرصحافی ناصر زیدی کی سرپرستی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی ہے۔ وہ ادارے جن کا کام تحقیقات کرنا ہے، انہیں اپنا کام غیرجانبداری سے کرنا چاہیے۔ وہ پچاس سال پرانے کیس بھی اوپن کرکے گھڑے مردے بھی اکھاڑ بھی لیتے ہیں، تو احمد نورانی کا کیس ان کے سامنے معمولی ہے۔
سیئنرطلعت حسین کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا ہے اور ان کو بدنام کرنے کی سازش ہوئی، اس کے بارے میں افضل بٹ نے کہاکہ صحافیوں کو بدنام کرنے اور انہیں حراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت، صحافتی ادارے اورصحافتی تنظیموں کو مل بیٹھ کر یہ سوچنا ہوگا کہ ہم دنیا کو پاکستان کا کون سا چہرہ دکھانا چاہتے ہیں۔ یہ موجودہ چہرہ یا پھر پاکستان کا وہ امیج جہاں صحافت کو آزادی حاصل ہو۔ صحافیوں کے تحفظ اور آزادی صحافت کے لیے کام کرنا ہوگا تاکہ یہ ثابت کیا جائے کہ پاکستان میں صحافت کو آزادی ہے اور صحافی اپنا کام آزاد ماحول میں کررہے ہیں۔




Recommended For You

Leave a Comment