اوسلو (بیورو رپورٹ)
ناروے پاکستانی صحافی قذافی زمان نے کہاہے کہ میرے ساتھ پولیس گردی بشمول جسمانی تشدد کی سزا پاکستان کی عوام کو نہیں ملنی چاہیے۔ میں کوئی انتقامی جذبہ نہیں رکھتا، صرف پاکستان کا نظام ٹھیک ہونا چاہیے۔
ان خیالات کا اظہارانھوں نے اوورسیز میڈیا فورم کے سربراہ اور سینئر پاکستانی صحافی سید سبطین شاہ سے فون پر بات کرتے ہوئے کیا۔
قذافی زمان جو ٹی وی ٹو ناروے کے لیے کام کرتے ہیں، پاکستان سے رہائی کے بعد گذشتہ روز واپس ناروے پہنچ ہیں۔
وہ پچھلے ہفتے چار دن تک پاکستان کی پولیس کی تحویل میں رہے جس دوران انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا اور ان کے دو موبائل فون اور کچھ دیگر سامان بھی چوری کیا گیا۔
انہیں گذشتہ ہفتے اس وقت گجرات میں گرفتار کیا گیا تھا جب وہ اپنے نارویجن ٹی وی کے لیے نوازشریف کی حمایت میں نکالے جانے والے جلوس کی کوریج کررہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ انہوں نے پولیس کو بتایاتھا کہ وہ صحافی ہیں اور ناروے سے انتخابات کی کوریج کے لیے پاکستان آئے ہیں لیکن پولیس نے ایک نہ سنی اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور چار دن تک اپنی تحویل میں رکھا۔
پولیس نے ان پر بے بنیاد مقدمات بشمول بلوہ کرنا اور پولیس پر حملہ کرنا وغیرہ بھی بنائے اور ان کی رہائی ضمانت پر عمل میں آئی ہے۔
قذافی زمان کی گرفتاری پر ناروے کے صحافتی حلقوں نے سخت تشویش ظاہر کی ہے۔ سیاسی سطح پر بھی یہ مسئلہ اٹھایا گیا۔ اس موضوع پر بعض نارویجن اپوزیشن حلقوں نے پاکستان کی امداد بھی بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
قذافی زمان نے پاکستان کے لیے نارویجن امداد بند کروانے کے اپوزیشن کے مطالبے کے بارے میں بتایاکہ وہ اس طرح کے اقدام کے حق میں نہیں۔ وہ انتقامی جذبہ نہیں رکھتے۔ ویسے بھی پولیس گردی کی سزا پاکستان کے عوام کو نہیں دی جاسکتی۔ ان کے حوصلے بلند ہیں اور وہ صبر و استقامت سے کام لیں گے۔
انھوں نے کہاکہ پاکستان کا نظام بہتر ہونا چاہیے۔ پاکستان کی پولیس اور انتظامیہ کو سدھر جانا چاہیے۔ کب تک وہ پاکستان کے لوگوں کو یرغمال بنائے رکھیں گے۔ اس دور میں بھی لوگوں پر بے بنیاد مقدمات بنائے جاتے ہیں۔
یادرہے کہ تیرہ جولائی کو گرفتاری کے بعد قذافی زمان کو بہت سے دیگر افراد کے ہمراہ تھانہ صدر گجرات لے جایاگیا اور بعد میں تھانہ سول لائن رکھا گیا۔ انھوں نے کہاکہ پولیس کا رویہ انتہائی منفی تھا اور کوئی پولیس والا بات سنننے کو تیار نہیں تھا۔
انھوں نے بتایاکہ اس دوران ان کا کچھ سامان جن میں دو موبائل فون تھے، بھی چرا لئے گئے۔ تھانے میں انتہائی گندا ماحول تھا، ہرطرف بدبو تھی اور صاف پانی بھی میسر نہیں تھا۔
انھوں نے بتایا کہ وہ اس سے قبل بھی پاکستان میں مختلف واقعات کی کوریج کرتے رہے ہیں لیکن ایسا اس سے قبل نہیں ہوا۔ وہ اس سے قبل بے نظیر بھٹو کے قتل، حالیہ انتخابات، سیلاب و زلزلے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کوریج کرچکے ہیں لیکن کبھی بھی پولیس نے ایسا نہیں کیا۔
پاکستان کے صحافتی حلقوں نے قذافی زمان کی گرفتاری اور ان پر تشدد کی مذمت کی ہے۔ اوورسیزمیڈیا فورم کے چیئرمین سید سبطین شاہ نے اس واقعے پر تشویش ظاہر کی اور کہاکہ پولیس کو بہتر تربیت اور آگاہی کی ضرورت ہے تاکہ وہ آزادی صحافت اور صحافیوں کے حقوق کا خیال رکھے۔
Share this:
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window)
- Click to share on Reddit (Opens in new window)
- Click to share on Tumblr (Opens in new window)
- Click to share on Pinterest (Opens in new window)
- Click to share on Pocket (Opens in new window)
- Click to share on Telegram (Opens in new window)
- Click to share on Skype (Opens in new window)