ناروے میں انتخابی گہماگہمی اور نارویجن پاکستانیوں کی ترجیحات

This slideshow requires JavaScript.

تحریر: سید سبطین شاہ

ناروے کی مرکزی پارلیمنٹ کے انتخابات کا عمل گیارہ ستمبر کو مکمل ہورہاہے۔ ناروے میں مقیم غیرملکی پس منظررکھنے والی متعدد اقوام میں نارویجن پاکستانی ایک نمایاں مقام اور اہمیت رکھتے ہیں۔

نارویجن پاکستانیوں کو پہلے ادوار کی طرح اس بار بھی انتخابات میں دلچسپی ہے لیکن اس بار ان لوگوں کی دلچپسی کچھ شرائط کے ساتھ ہیں۔

اکثر نارویجن پاکستانی جن کی زیادہ تر تعداد دارالحکومت اوسلو میں مقیم ہے، ووٹ لینے والوں سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ خدا را ہمارے ساتھ رویہ درست کیاجائے۔ ’’ہم ان پارٹیوں کو ووٹ دیں گے جو ہمارے کے لیے فیملی ویزا کوآسان بنائیں گی۔‘‘ جب اس سلسلے میں راقم نے اوسلومیں فعال شخصیت محمد شریف گوندل سے بات کی تو انھوں کاکہناتھاکہ نارویجن حکومت نے فیملی کے لیے ویزا بہت سخت کردیاہے۔ ویزا کے لیے شریک حیات کی عمر چوبیس سال کردی گئی ہے اور ویزا کی درخواست پر غور کا عمل پندرہ ماہ سے قبل مکمل نہیں ہوتا اور ناروے میں دوسرے فریق کی آمدنی کی شرط مزید سخت کردی گئی ہے۔ ان کے بقول، جب لڑکا یا لڑکی انٹرویو اس طریقے سے سخت اور طویل انٹرویو لیاجاتاہے کہ اس کے بعد وہ اپنے آپ کو ملزم محسوس کرنے لگتاہے یا لگتی ہے۔  ایک دوسرے نارویجن پاکستانی ملک پرویز بھی کچھ اسطرح کے خیالات رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے یہ مسئلہ کئی بار اٹھایاہے۔

ناروے میں زیادہ تر پاکستانی ستر کی دہائی میں آئے۔ اس وقت پاکستانیوں کی تیسری نسل نے آنکھ کھول لی ہے۔

گذشتہ ہفتےفیملی نیٹ ورک تنظیم نے اسی طرح کی ایک انتخابی تقریب کا اہتمام کیاجس میں انھوں نے مختلف پارٹیوں کے نمائندوں پربلایاتاکہ وہ اپنے مقاصد بیان کریں اور لوگ اپنے مسائل کے حوالے سے ان سے سوالات کرسکیں۔ اس کارنر میٹنگ کے میزبان نارویجن پاکستانی ادبی شخصیت آفتاب وڑائچ اور سماجی کارکن ڈاکٹرٹینا شگفتہ تھیں۔

اس کے علاوہ اوسلوکے تویتھا سنٹر میں گذشتہ اتوارکے روز ایک مہم کے دوران لیبرپارٹی سے وابستہ غلام سرور نے نارویجن پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ ووٹ ضرورڈالیں۔

اس موقع پر کھاریاں سے تعلق رکھنے والے صحافی میاں محمد صفدر نے بھی لوگوں سے کہاکہ اپنا ووٹ ضائع نہ کریں۔ گھروں سے باہرنکل کر ووٹ دیں۔ اس موقع پر لیبرپارٹی کے رکن اوسلوسٹی پارلیمنٹ ڈاکٹرمبشربنارس اور گرورود ضلع کونسل کے رکن محمد قاسم  بھی موجودتھے۔

اقبال ڈینی جن کا تعلق لبرل پارٹی سے ہے اور وہ اس بار انتخابات میں مقابلہ نہیں کررہے، کہتے ہیں کہ ویزا کی شرائط آسان کرنے کی درخواست کو انتخابی مہم کے دوران پیش کرنے کا فائدہ نہیں۔ ’’یہ قانون سب کے لیے ہے، کسی خاص طبقے کے لیے نہیں۔‘‘ انھوں نے کہاکہ پچھلےدنوں مشرق وسطٰیٰ اور دیگر ممالک سے بہت سے مہاجرین ناروے آئے ہیں او اس لیے ویزا پالیسی میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

نارویجن پاکستانی فعال خاتون عائشہ ناز بھٹی جو سنٹر پارٹی کی طرف  سے قومی پارلیمنٹ کی نشست کے لیے امیدوار ہیں، کہتی ہیں کہ اگرچہ ان کی پارٹی زیادہ تر دیہاتی علاقوں میں شہرت رکھتی ہے لیکن وہ اس لئے میدان میں آئی ہیں تاکہ ان کو دیکھ کرنارویجن پاکستانی خواتین انتخابات میں بھرپور حصہ لیں۔

نارویجن قومی پارلیمنٹ کی کل ۱۶۹ سیٹیں ہیں جن کے حصول کے لیے متعدد پارٹیاں نبردآزمائی کررہی ہیں۔ اس وقت جو پارٹیاں نارویجن پارلیمنٹ میں موجود ہیں، ان میں دائیں بازو کی جماعت ہورے پارٹی، دائیں بازو کی سخت گیرجماعت پراگریس پارٹی، کرسچن ڈیموکریٹ پارٹی، لبرل پارٹی، لیبرپارٹی، سنٹرپارٹی، بائیں بازو کی سوشلسٹ وینسترے پارٹی اور گرین پارٹی وغیرہ وغیرہ۔

پچھلے انتخابات کے نتیجے میں ہورے پارٹی اور پراگریس پارٹی نے کچھ چھوٹی جماعتوں سے مل کرہورے پارٹی کی سربراہ ایرنا سولبرگ کو وزیراعظم منتخب کیا اور ایک مخلوط حکومت بنائی تھی جس کی مدت اس سال ستمبرمیں ختم ہورہی ہے۔

بلاشبہ ناروے کے انتخابات نارویجن لوگوں کے لیے بہت اہم ہیں اور غیرملکی پس منظررکھنے والوں سمیت تمام لوگوں کے لیے ان انتخابات میں شرکت بہت ضروری ہے۔

اگرچہ ویزا شرائط میں سختی کا تعلق انتخابات سے نہیں لیکن اس دوران مطالبات پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہی وہ موقع ہوتاجب بات سنی جاتی ہے اور منتخب ہونے والے نمائندے اپنی پارٹیوں کے پالیسی سازوں تک گزارشات پہنچاسکتے ہیں۔ پالیسیاں بنانا اور تبدیل کرنا ایک الگ بات ہے لیکن رویئے درست کرنا بہت ضروری ہیں۔ خاص طور پراس دور رویہ درست کرنا ہرکسی کے مفاد میں ہے۔ آج لوگوں کے پاس زبان ہے اور ان کی آوازکو میڈیاکے ذریعے پوری دنیامیں بلندکیاجاسکتاہے۔ ویسے بھی ابھی تک اظہاررائے کی آزادی ہے جسے اپنے جائز مطالبات کے لیے استعمال کیاجاسکتاہے۔

Recommended For You

Leave a Comment