نارویجن فلم: لوگ کیا کہیں گے؟ تحریر: محمد طارق

 فلاحی مملکت میں جب انسان کی ہر بنیادی ضرورت ریاست پوری کرنا شروع کر دیتی ہے ، تو اس وقت ہر بالغ انسان اپنی زندگی آزادانہ طور پر گذرانے کا خواہشمند ہوتا ہے – فلاحی ممالک انسان کی ان آزادانہ خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اپنے شہریوں کو مکمل سپورٹ کرتی ہیں ، ان کو ہر قسم کا تحفظ دیتی ہیں ، شرط صرف یہ ہے کہ انسان کی اس آزادی سے کوئی دوسرا انسان ڈسٹرب نہ ہو – اسی لیے مغربی معاشروں کے مقامی لوگ مشرقی ممالک کے لوگوں کی نظر میں آزادخیال اور عزت سے عاری تصور کیے جاتے ہیں – دوسری طرف مغربی ممالک کے مقامی لوگ مشرقی لوگوں کو غیر ترقی یافتہ، آمرانہ روایات کے امین اور ایک انسان کی انفرادی زندگی کو کنڑول کرنے والے گردانتے ہیں – انہی معاشرتی قدروں ، مغربی مشرقی ثقافتوں کی تقسیم پر ایک  پاکستانی نژاد نارویجین ہدایت کار ارم حق کی نارویجین زبان کی فلم لوگ کیا کہیں گے ؟ناروے کے سینما کی زینت بنی ہے۔

 اب تک یہ فلم کافی توجہ کا باعث رہی اور اس کو دیکھنے والوں کا ہہت رش ہے ، سماجی موضوع پر بننے والی اس فلم پر نارویجین میڈیا ، سوشل میڈیا میں نارویجین پاکستانی، نارویجین اور دوسرے ممالک کے تارکین وطن کے درمیان زورشور سے بحث جاری ہے ، کہ تارکین وطن ناروے میں کافی عرصے رہنے کے بعد بھی مقامی ثقافت اور مقامی قدروں کو کیوں کر مکمل طور پر نہیں اپنا سکے – اس فلم کی کہانی ایک پاکستانی نوجوان لڑ کی کے گرد گھومتی ہے کہ وہ کس طرح اپنی پاکستانی معاشرتی اقدار کو ساتھ رہ کر انتہائی اوپن ، فری لبرل مغربی معاشرے میں ذندگی گزارتی ہے ، یہ نوجوان لڑکی اپنے ماں باپ کے آبائی رسم و روایات کی پاسداری کرنے کی کوشش کرتی ہے ، ساتھ ہی نارویجین معاشرے میں ایڈجسٹ کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے ، لیکن ایک دن لڑکی اپنے گھر میں اکیلے ہوتے ہوئے اپنے نارویجین دوست لڑکے کو اپنے گھر بلا لیتی ہے ، اس وقت اچانک لڑکی کا پاکستانی باپ گھر میں داخل ہوتا ہے ، باپ یہ منظر دیکھ کر غصے میں آجاتا ہے ، اور پھر اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر فیصلہ کرتا ہے کہ لڑکی کو اچھی تربیت ، شرم وحیا کی تربیت کے لیے پاکستان بھیج دینا چاہئے، اس طرح لڑکی کو پاکستان بھیج دیا جاتا ہے ، لیکن یہ لڑ کی پاکستان کے روایتی معاشرتی رسم ورواج میں بھی ایڈجسٹ نہیں کرتی اور ایک سال بعد خود ہی واپس ناروے آجاتی ہے ، ناروے واپس آکر وہ اپنے گھر والوں سے لاتعلق ہو جاتی ہے ۔

اس فلم میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ تارکین وطن بچوں اور نوجوانوں کو کن سماجی مسائل سے واسطہ پڑتا ہے، اور وہ ان مسائل پر کس طرح قابو پانے کی کو شش کرتے ہیں ، فلم کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ مشرقی ممالک کے لوگ کس طرح اپنی ناک ، اپنی خاندانی عزت کی خاطر دوسرے لوگوں کی نظروں سے بچنے ، دوسرے لوگوں کی باتیں سننے سے بچنے کے لیے اپنے بچوں کی زندگی پر کون کون سے منفی اثرات مرتب کرتے ہیں- سوشل میڈیا میں اس فلم کی وجہ سے یہ بحث جاری ہے کہ ہر انسان کو اپنے حساب ، اپنی مرضی سے زندگی گذرانے کا حق ہے ، اس لیے کسی دوسرے کو سماجی کنٹرول کے طریقو ں سے کسی دوسرے انسان کی ذاتی زندگی میں کسی بھی قسم کا خلل ڈالنے کی ضروت نہیں۔

Recommended For You

Leave a Comment