دنیا کا سب سے قیمتی اثاثہ،عالمی یوم خواتین کی مناسبت سے خصوصی مضمون

Sigmund Aas
 SIGMUND AASتحریر: سیگمُون آص

خواتین کے عالمی دن کی آمد آمد ہے جو ہر سال 8 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جہاں ایک طرف سب سے زیادہ مساوی کے حقوق پائے جاتے ہیں اور دوسری طرف دنیا کے سب سے کم حقوق بھی ،ہمارے لیے یہ دن ہمیشہ سے تلخ بھی رہا ہے اور خوشگوار بھی۔ خوشگوار اس لیے کہ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دنیا کے اس حصے میں خواتین نے کتنی ترقی کی ہے اور تلخ اس لیے کہ ہمیں یہ دن یاد دلاتا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں خواتین انتہائی کسمپرسی کا شکار ہیں۔آج کے دن اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ خواتین کے مسائل حل کرنا ایسے ہی ہے جیسے دنیا کے بہت سے مسائل کو حل کرنا۔ عام طور پر تعلیم اور خاص طور پر خواتین کی تعلیم آج کی دنیا کی مثبت اور پرامن ترقی کے لیے ایک نہایت موثر ذریعہ ہے۔ایک ذریعہ جو نہایت ہی مثبت اثرات مرتب کرے گا۔ خواتین کی آبادی دنیا کی آبادی کا نصف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نصف آبادی میں علم، ٹیلنٹ ، نظریات، خیالات اور کام کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ بقیہ نصف کی توانائیوں کو بروئے کار نہیں لایا گیا ۔ دنیا کی ترقی اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک صومالیہ کی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کے موقع نہیں ملتے اور مصر کی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کا جواز نہیں ملتا۔ ایک ملک جہاں تعلیم اور کام نصف آبادی تک محدود ہو کی مثال ایسی ہے جیسے ایک مشین سے آدھا کام لیا جائے۔ ایسا ملک کبھی بھی ترقی یافتہ ممالک کے رہن سہن اور انسانی حقوق کی برابری نہیں کر سکتا بلکہ ہمیشہ غربت کی چکی میں پستا ہے۔ ناروے دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے اور اسکی ایک وجہ سمندر سے حاصل ہونے والا تیل ہے۔ لیکن فنانس ڈیمپار ٹمنٹ کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ خواتین کا کام کرنا تیل سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم نہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے پرائز بونڈ جیتا جائے اور اسے کیش نہ کرایا جائے۔ تعلیم خواتین کو بے شمار جگہوں پر مواقع فراہم کرتی ہے۔ اور اگر آپ کے خیال میں تعلیم مہنگی ہے تو جنگ کی مثال لے لیں۔ ٹرینٹی کالج ڈبلن کا 2014 کا ایک سروے ثابت کرتا ہے کہ اگر امن مذاکرات میں لوکل خواتین کو شامل کیا جائے تو 24 فیصد زیادہ چانس ہے کہ جنگ ایک سال کے اندر ختم ہو جائے گی۔ خواتین میں معاشرے کی مسائل کو حل کرنے کی زیاد ہ صلاحیت ہوتی ہے بجائے اس کے کہ مختلف جماعتوں کے مفادات پر توجہ دی جائے۔دنیا کے وہ حصے جہاں پر زیادہ آبادی ہو وہاں پر معاشی اور سیکورٹی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وہاں تعلیم یافتہ خواتین کم بچے پید ا کرتی ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم افریقہ اور سہارہ کی ریسریچ کے مطابق خواتین کی تعلیم اور شرح پیدائش میں ایک خاص تناسب پایا جاتا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ خاتون جس کے دو بچے ہوں اور وہ انکو تعلیم دلائے جو بچے کے لیے ، اس کے لیے اور دنیا کے لیے فائدہ مند ہواس غیر تعلیم یافتہ عورت سے بہتر ہے جس کے چھ بچے ہوں اور وہ بھوک سے مر رہے ہوں۔ کم بچوں کا مطلب ہے خوراک، صاف پانی، صحت اور تعلیم جیسے وسائل کے لیے کم جہدوجہد کرنا۔ اور اسکا مطلب یہ بھی ہے کہ ان وسائل کے حصول کے لیے کم مشکلات کا سامنا کرنا۔ تعلیم کو چرایا نہیں جا سکتا، مادی چیزوں کے مقابلے میں اسکو کبھی بھی نہیں چرایا جا سکتا اور نہ ہی اسکوکھویا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس تعلیم تکنیکی ، ثقافتی، سماجی سوجھ بوجھ ،مادی چیزوں اور انسانی ترقی کے لیے بنیا د رکھتی ہے۔ یہ علم ہی تھا جس نے ہمیں جاہلیت کی تاریکیوں سے نکالا۔ یہ علم ہی تھا جس نے استنبول میں ہاگیہ صوفیہ مسجد ، دنیاکے سات عجوبے اور محبت کی نشانی تاج محل بنایا۔ یہ علم تھا جس نے مریخ پر ربوٹ بھیجے اور انسان کو چاند پر پہنچایا۔ یہ علم تھا جس کی تحقیق، بہتر کام اور رسائی نے ہمیں طب ، سائنس اور فلاسفی میں ترقی دی۔یہ ترقی ہوئی باوجود اس کے کہ خواتین کی بڑی تعداد کو تعلیم سے محروم رکھا گیا، یہ انسانیت کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ سوال یہ نہیں کہ خواتین کو تعلیم دینے کے قابل نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا ہم انکو تعلیم سے محروم رکھنے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ خواتین کی تعلیم دنیا کی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ لیکن اس کے مخالفین بھی بہت زیادہ ہیں۔ لیکن جو خواتین کی تعلیم کے مخالفین ہیں وہ اپنے ملک کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ وہ خواتین کی تعلیم کو روکنے کے اتنے خلاف ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک میں سکول جانے والی بچیوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مشرقی نائیجیریا مئی 2014 میں 219 بچیوں کو اغواء کیا گیا۔ کیونکہ ایک تو انکا گناہ لڑکی ہونا اور دوسرا علم حاصل کرنا تھا۔ وہ دھمکیوں خطرات اور تعصبات کے باوجود اس دن سکول گئیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ بہتر مستقبل کے لیے تعلیم ہی ایک سنہری موقع تھا۔ پاکستان میں طالبان نے ملالہ یوسف زئی کو قتل کرنے کی کوشش کی جب وہ 15 سال کی تھی۔دو سال بعد دس دسمبر 2014 کو اس نے نوبل امن پرائز جیت لیا۔ یہ خواتین کی تعلیم کے حمایتوں کے لیے ایک خوشگوار اور تلخ فتح تھی۔ خوشگوار اس لیے کہ طالبان جن کو دنیا کی طاقتور فوج شکست نہ دے سکی انکو 17 سال کی تعلیم یافتہ لڑکی نے ہرا دیا۔ تلخ اس لیے کہ امن پرائز کا بوجھ ایک بچی کے کندھوں پر ڈال دیا گیا اور یہ کہ سکول جانے والی بچیوں کو اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے جنگ کرنا پڑی۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس کی اجازت کوئی بھی معاشرہ نہیں دیتا۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان بچیوں کی ان خطرات کے خلاف غیر مشروط حمایت کریں جو انکے مستقبل اور انکے بہترین سال چھین رہا ہے۔ ہم لوگ جنہوں نے جنگ کا سامنا کیا ہے امید کرتے ہیں کہ ایک ایسا وقت آئے کہ کسی شخص کو یہ وقت یاد نہ رہے۔ جہاں وسائل کو نوجوان لوگوں کی زندگیاں خراب کرنے کی بجائے انکی تعلیم پر صرف کیا جائے۔ہم نے مساوی حقوق پر بہت بات کی ہے ، اب وقت ہے کہ اگلے باب کو لکھا جائے اور یہ دنیا کی تمام لغت ، قانون اور سکول کی کتابوں میں لکھا جائے، تب جا کر دنیا ترقی کرے گی۔ مذہبی انتہا پسندی پر سوالیہ نشان اٹھانے اور اس سے نبردآزماہونے کے لیے ہمیں تعلیم کی ضرورت ہے۔ ہمیں تمام لوگوں کے لیے تعلیم کی ضرورت ہے کیونکہ علم ہی طاقت ہے۔علم ہر قیمت پر حاصل کرناچاہیے کیونکہ اس کے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ میرے لیے یہ ایک حقیقت ہے بہت سے لوگ اس حقیقت کو منانے کی بجائے مذہبی رہنماؤں کی طرح خواتین کو تعلیم نہ دلانے کی غلطی کرتے ہیں ۔ کیونکہ اگر آپکا یہ مانناہے کہ تعلیم مہنگی ہے تو جہالت کو آزمائیں۔ 




Recommended For You

Leave a Comment