سانحۂ مشرقی پاکستان؛ سیاسی اور فوجی قیادت کی ناکامیوں کی داستان

The tragedy of East Pakistan; the story of the political and military leadership failures

اس میں شک نہیں کہ 1971ء کی جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہماری تاریخ کی سب سے بڑی شکست اورتذلیل تھی جس کا سامنا پاک فوج اور عوام کو کرنا پڑا۔

پاکستان کی مسلح افواج اور عوام  جنہوں نے محض چھ برس پہلے بھارت کے خلاف جنگ میں عزم و ہمت کا شاندارمظاہرہ کرتے ہوئے کامیابی کے ساتھ اپنی آزادی اور خودمختاری کا دفاع کیا تھا، مایوسی کی اتھاہ گہرائی میں جاگرے ۔

1970ء کے عام انتخابات پر پوری عالمی برادری نے پاک فوج کی شاندار کارکردگی کو سراہا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل یحییٰ خان نے عوام سے کیے گئے وعدے کے عین مطابق ملک کی تاریخ کے سب سے زیادہ شفاف اور منصفانہ انتخابات منعقد کروا دیئے تھے۔ انتخابات کے انعقاد کے محض تین ماہ کے اندر پاک فوج ملک کے مشرقی حصے میں خانہ جنگی میں الجھ چکی تھی۔ 9ماہ تک سیاسی قائدین اقتدارکے زیادہ سے زیادہ حصے پر قبضہ کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔سیاسی تنازعات کی خلیج وقت گزرنے کے ساتھ وسیع تر ہوتی گئی جسے پاٹنا ممکن نہ رہا۔

قیام پاکستان تاریخ انسانی کا انتہائی جراتمندانہ تجربہ تھا۔ اِس انوکھے ملک کا قیام اِس کے عوام کے لیے اپنے طور پر ایک بہت بڑا چیلنج بھی تھا، یعنی جغرافیائی دوری، مختلف نسل اور زبان کے باوجودایک مشترک پہچان اور یکساں نظریات کی بنا پر ایک قوم بن کر رہنے کا چیلنج، لیکن ہم اس چیلنج میں سرخرو نہ ہوسکے۔ذیل میں ترتیب وار ان حالات و واقعات کا ذکر ہے جو بالآخر متحدہ پاکستان کے خاتمے پر منتج ہوئے۔

14اگست 1947ء

برصغیر ہندوستان تقسیم ہوا۔ دو خودمختار ریاستیں (ہندو) انڈیا اور (مسلم) پاکستان کے نام سے معرض وجود میں آئیں۔ نیا ملک پاکستان مسلم اکثریت کے دو علاقوں پر مشتمل تھا۔ اس کا ایک حصہ ہندوستان کے شمال مغرب میں اور دوسرا شمال مشرق میں واقع تھا۔ شمال مغربی علاقے کو مشرقی بنگال کہتے تھے ‘ جبکہ شمال مغربی حصے میں سندھ‘ بلوچستان‘ شمال مغربی سرحدی صوبہ اور صوبہ پنجاب کا کچھ حصہ شامل تھا۔ غیر منقسم ہندوستان میں اپنی اکثریت کی وجہ سے ہندو یہ سمجھتے تھے کہ برطانوی تسلط سے آزاد ہونے کے بعد ہندوستان میں سیاسی اقتدار کے وہی حقدار ہیں۔ اس لئے پاکستان کا قیام انہیں ناپسند تھا۔ ان کے ممتاز لیڈ رگاندھی نے ہندوستان کی تقسیم کو ’’مقدس گائے کو دو نیم کرنے کا عمل‘‘ قرار دیا تھا اور ہندو مہاسبھا کا کہنا تھا کہ ’’ہندوستان ناقابل تقسیم ہے۔ اس کو جب تک دوبارہ اکھنڈ نہیں کیا جائے گا‘ یہاں امن و امان قائم نہیں ہو سکتا‘‘۔

21مارچ 1948ء

قائداعظم محمد علی جناح نے جو پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بھی تھے‘ مشرقی پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے ڈھاکہ میں اعلان کیا کہ پاکستان کی سرکاری زبان صرف اردو ہو گی‘ بنگالی نوجوانوں نے اس کو اپنی حق تلفی سمجھا اور اس بیان کے خلاف شدید احتجاج کیا ۔ شیخ مجیب الرحمن جو اس وقت یونیورسٹی میں طالب علم تھے مظاہرہ کرنے والے نوجوانوں میں شامل تھے۔ مجیب سمیت کئی طلباء کو گرفتار کر لیا گیا‘ مگر آئندہ کے لئے ڈھاکہ یونیورسٹی بنگلہ زبان کی حمایت میں مظاہرہ کرنے والے طلبہ کی سرگرمیوں کا مرکز بن گئی۔

26جنوری 1952ء

آئین کے بنیادی رہنما اصول مرتب کرنے کی غرض سے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے جو کمیٹی قائم کی تھی اس نے اپنی سفارشات کااعلان کر دیا۔ ایک سفارش یہ تھی کہ اردو پاکستان کی واحد سرکاری زبان ہو گی۔ اس پر مشرقی پاکستان میںغم و غصہ کی ایک شدید لہر چل پڑی۔

30 جنوری 1952ء

بنگالیوں نے مذکورہ سفارش کے خلاف ڈھاکہ میں احتجاجی جلسے منعقدکئے۔ عوامی مسلم لیگ کے صوبائی صدر مولانا بھاشانی نے بھی ان جلسوں سے خطاب کیا۔ 21 فروری کو جب صوبائی اسمبلی کا ’’بجٹ اجلاس‘‘ منعقد ہونا تھا‘ عام ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

21 فروری 1952ء

وزیر اعلی نور الامین نے اگرچہ جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کر رکھی تھی‘ مگر 21 فروری کو احتجاجی جلسے منعقد ہوئے‘ جلوس نکالے گئے طلبہ اور پولیس میں تصادم ہوا‘ تین طالب علم اور کئی اور لوگ ہلاک ہوئے۔ ان کی قربانی کی یادگار کے طور پر ’’شہید مینار‘‘ تعمیرکئے گئے ۔

17 اپریل 1953ء

گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی وزارت کو پارلیمنٹ سے اعتماد (یا عدم اعتماد) کا ووٹ لئے بغیر موقوف کر دیا۔ اس سے بنگالی اور زیادہ ناراض ہو گئے۔

اپریل 1953ء

عوامی لیگ نے اپنی اصل لادینی خصوصیت کونمایاں کرنے کے لئے ’’مسلم‘‘ کا لفظ اپنے نام سے خارج کر دیا اور اپنانام صرف عوامی لیگ رکھ لیا۔ اس سے پرانے مسلم لیگی سخت ناراض ہوئے اور انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ ان کی جگہ سرمایہ دار ہندو عوامی لیگ میں داخل ہو کر اس کی حکمت عملی میں دخیل ہو گئے۔

8 تا11مارچ 1954ء

مشرقی پاکستان میں مجلس قانون ساز کے انتخابات عمل میں آئے یہ آزادی ملنے کے بعد پہلے انتخابات تھے‘ عوامی لیگ‘ کرشک سرامک اور مشرقی بنگال کی دوسری پارٹیوں نے مسلم لیگ کا مقابلہ کرنے کے لئے متحدہ محاذ (جگتو فرنٹ) قائم کر لیا۔ ’’محاذ‘‘ کے 21نکاتی منشور میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ بنگلہ زبان کو سرکاری زبان تسلیم کیا جائے۔ ایک اور اہم نکتہ صوبائی خودمختاری کا مطالبہ تھا۔

30 مئی 1954ء

گورنر جنرل نے ’’متحدہ محاذ‘‘ کی حکومت کو برطرف کر دیا‘ کیونکہ وزیراعلیٰ فضل الحق نے چند روز قبل کلکتہ ’’ایئرپورٹ‘‘ پر مبینہ طور پر ایک باغیانہ بیان دیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن نظر بند کر لئے گئے۔ صوبے میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا ۔ ’’متحدہ محاذ‘‘ کا شیرازہ بکھر گیا۔ اس سے مرکز کے خلاف نفرت پیدا ہوئی۔

6 اگست 1955ء

مسٹر غلام محمد… وہ ’’علیل سازشی‘‘ … بالآخر پاکستان کی سیاست سے نکل گیا۔ سات ستمبر کو اسکندر مرزا نے گورنر جنرل کے منصب کا حلف اٹھایا۔ اسکندر مرزا ایک غیر سیاسی شخصیت تھے‘ مگر نہایت چلتے پرزے۔ انہوں نے وزارت عظمیٰ کا قلمدان چودھری محمد علی کے سپرد کر دیا جن کو مسلم لیگ نے نامزد کیا تھا‘ حالانکہ عوامی لیگ کے قائد کی حیثیت سے مسٹر ایچ ایس سہروردی سمجھتے تھے کہ وزارت سازی کا حق انہیں پہنچتا ہے۔ بنگالیوں نے اس واقعے کو بھی بنگالیوں کے سیاسی اقتدار سے محروم رکھنے کا ایک اقدام سمجھا۔

7 ستمبر 1955ء

مغربی بازو میں واقع تمام صوبوں یعنی پنجاب‘ شمال مغربی سرحدی صوبہ‘ بلوچستان اور سندھ کو مدغم کر کے ’’ون یونٹ‘‘ بنایاگیا اور اسے ’’مغربی پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس سے بنگالیوں نے یہ سمجھا کہ یہ بنگالیوںکو جو ایک اکثریتی صوبے سے تعلق رکھتے ہیں اپنے جائز حقوق سے محروم رکھنے کی ایک اور چال ہے۔

29 فروری 1956ء

چودھری محمدعلی کی ان تھک کوششوں سے دستور ساز اسمبلی نے ملک کا پہلا آئین منظور کر لیا اور تین ہفتے بعد یعنی 23 مارچ کو اسے نافذ کر دیا گیا۔ اس آئین میں پیرٹی (Parity) کے اصول پر پالیمنٹ میں دونوں صوبوں کو برابر نمائندگی کا حق دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان اب ایک ’’جمہوریہ‘‘ بنا اور اس کا گورنر جنرل صدر کہلانے لگا۔ اردو کے علاوہ بنگلہ کو بھی سرکاری زبان تسلیم کیاگیا۔

20اگست 1956ء

مشرقی پاکستان میں ’’کے ایس پی‘‘ کی حکومت کو جو گزشتہ چودہ مہینوں سے اسمبلی کا سامنا کئے بغیر برسراقتدار چلی آرہی تھی‘ مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ اس کی جگہ عوامی لیگ نے ایک ہندو لیڈر جی کے داس اور ان کی پارٹی کی اعانت سے حکومت قائم کر لی۔ مسٹر عطاء الرحمن اس کے وزیراعلیٰ بنے۔

18جون 1958ء

عوامی لیگ کی مخلوط حکومت مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں شکست کھا گئی‘ مسٹر عطاء الرحمن مستعفی ہو گئے۔ دو دن بعد ’’کے ایس پی‘‘ نے وزارت بنائی جو بمشکل تین روز چل سکی۔ صوبے میں ایک مرتبہ پھر ’’گورنر راج ‘‘ نافذ ہوکر دیا گیا۔

26اگست 1958ء

’’گورنر راج‘‘ ختم کر دیا گیا‘ عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں پھر حکومت قائم کرلی۔

21 ستمبر 1958ء

مشرقی پاکستان کی اسمبلی کے اجلاس میں ’’اسپیکر‘‘ کی جانبداری کے مسئلہ پر ہنگامہ ہو گیا‘ کئی ارکان شدید زخمی ہوئے۔ ڈپٹی اسپیکر مسٹر شاہد علی جان سے مارے گئے۔

7 اکتوبر 1958ء

جنرل محمد ایوب خان کی حمایت سے صدر اسکندر مرزا نے آئین معطل کر دیا‘ اسمبلی توڑ دی اور ملک میں ’’مارشل لاء‘‘ نافذ کر دیا۔ جنرل ایوب خان کو ’’چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر‘‘ مقرر کیاگیا۔ اس ’’انقلاب‘‘ نے بنگالیوں کی سیاسی حق طلبی کی امنگ پر ’’مہر‘‘ لگا دی۔

28کتوبر 1958ء

جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو برطرف کر کے لندن بھیج دیا اور خود ’’فیلڈ مارشل‘‘ کا رینک اختیار کر کے تمام اختیارات سنبھال لئے۔مشرقی پاکستان پر وہ اپنی مرضی کے گورنروں کے ذریعے حکومت کرنے لگے‘ مسلح افواج میں چونکہ بنگالیوں کی نمائندگی بہت کم تھی‘ اس لئے وہ محسوس کرنے لگے کہ فوجی انقلاب آنے سے ہمیشہ کے لئے سیاسی اقتدار سے محروم ہو گئے ہیں۔ مارشل لاء کی سختی نے انہیں کچلنے کی کوشش کی تو اس سے صوبائیت کے جذبے کو اور ہوا ملنے لگی۔

26 اکتوبر 1959ء

ایوب خان نے’’بنیادی جمہوریتوں‘‘ کا نظام نافذ کر دیا۔ یہ نظم و نسق کی اعانت کے لئے مقامی اداروں پر مشتمل ایک نیا نظام تھا۔ ملک کے صدر اور اسمبلی کے ارکان کومنتخب کرنے کا اختیار بھی بہت جلد انہی بنیادی اداروں کے اسی ہزار ارکان کو تفویض کر دیا گیا بنگالیوں نے سمجھا کہ اس باریک پردے میں دراصل ایک فرد واحد کی حکومت کو مستقل کرنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔

26 اکتوبر 1962ء

بنگال کے رہنے والے مسٹر منعم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کیا گیا جوایوب خان کے زوال (1969ء) تک اس منصب پر فائز رہے۔ ایوب خان سے ان کی انتہائی وفاداری کی وجہ سے وہ بنگالیوں میں غیر مقبول ہوگئے۔ کٹر بنگالی انہیں ’’پنجابیوں کا ایجنٹ‘‘ کہتے تھے۔ یونیورسٹی کے طلبہ نے ان کے ہاتھ سے اسناد لینے سے انکار کردیا تھا۔

29 مئی 1963ء

نیشنل اسمبلی کے ایک بنگالی رکن نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا ’’مغربی پاکستان کو مشرقی پاکستان کی قیمت پر ترقی دی جا رہی ہے۔ پچھلے پندرہ برسوں میں کم درآمدات اور زیادہ برآمدت کی صورت میں مشرقی پاکستان کو اس کے گاڑھے پسینے کے ایک سو کروڑ روپیہ سے محروم کیا گیا ۔ مغربی پاکستان کی تعمیر کے لیے ہمیں دیوالیہ کردیا گیا ہے۔ ہم سے کہا جاتا ہے چھوکرو نکل جائو ہمارے پاس تمہارے واسطے کچھ نہیں ہے۔ ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے۔‘‘

2 جنوری 1964ء

صدارتی انتخابات منعقد ہوئے قائداعظمؒ کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کا مقابلہ کیا۔ حزب مخالف کی تمام جماعتوں نے ان کی حمایت کی۔ بنگالیوں نے بھی ان کی حمایت میں غیر معمولی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔ ان کے خیال میں ایک ڈکٹیٹر کو ہٹا کر سیاسی حقوق بحال کرنے کا یہ ایک سنہری موقع تھا۔ اگرچہ اس ’’الیکشن‘‘ میں ایوب خان نے ’’بنیادی جمہوریتوں‘‘ کے اسّی ہزار ارکان کی اکثریت کے ووٹ حاصل کرلیے، مگر ڈھاکہ میں جو مشرقی پاکستان کی سیاست کا مرکز سمجھا جاتا تھا وہ مس جناح سے ہار گئے۔

6 ستمبر 1965ء

ہندوستان اور پاکستان کے مابین ایک مرتبہ پھر مسئلہ کشمیر پر جنگ چھڑگئی۔ یہ معاملہ جہاں مغربی پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا، وہاں مشرقی پاکستان میں اس کو عموماً دور دراز کا مسئلہ سمجھا جاتا تھا۔ بھارتی فضائیہ کے جیٹ طیارے جب کبھی ڈھاکہ پر منڈلانے آجاتے تو بنگالیوں کے دلوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا کیونکہ مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے معقول تعداد میں فوج، ایئرفورس اور نیوی نہیں رکھی گئی تھی۔ یہی ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا۔

6 فروری 1966ء

شیخ مجیب الرحمن نے لاہور میں اپنے مشہور چھ نکات کا اعلان کیا۔ چھ نکات میں بنیادی طور پر ایک ایسے سیاسی بندوبست کی وکالت کی گئی تھی جس میں مرکزی حکومت محصولات کے اختیارات کے بغیر امور خارجہ اور امور دفاع کی دیکھ بھال کرتی رہے۔ مجیب نے اپنے پروگرام کو ’’صوبائی خود مختاری‘‘ کے حوالے سے پیش کیا، جبکہ مغربی پاکستان کے لوگوں نے اسے علیحدگی کی تحریک سمجھا۔

20 جنوری 1968ء

’’اگر تلہ سازش‘‘ کا انکشاف کیا گیا۔ اس ’’سازش‘‘ میں شیخ مجیب الرحمن کے علاوہ 22 دوسرے بنگالیوں کو بھی اس الزام میں ماخوذ کیا گیا کہ وہ ہندوستان کی ملی بھگت سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ایک ’’آزاد بنگال‘‘ کے قیام کی کوشش کر رہے تھے۔ جولائی 1968ء میں جب ڈھاکہ میں مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی، تو بنگالیوں کا ردعمل قطعاً مختلف تھا۔ مجیب کو غدار کے رنگ میں پیش کر رہے تھے، مگر بنگالی اسے ہیرو کے روپ میں دیکھ رہے تھے۔

27 اکتوبر 1968ء

1958ء کے انقلاب کی دسویں سالگرہ کی تقریبات جو سال بھر سے منائی جا رہی تھیں اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ گئیں جس بھدے انداز سے حکومت کے کارناموں کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور جس عامیانہ طریقے سے اقتصادی ترقی کی تشہیر کی گئی اس سے لوگوں میں اپنی اقتصادی مشکلات کا احساس کچھ اور بڑھ گیا۔ لوگوں کے دلوں میں ایوب خان کے خلاف سویا ہوا جذبہ جاگ پڑا۔

7 نومبر 1968ء

راولپنڈی میں ایک طالب علم پولیس کی گولی سے ہلاک ہوگیا۔ اس سانحے نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف مظاہروں کے سلسلے میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔ طلبہ کو اپنے مطالبات کی کامیابی کے لیے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کی ذات میں ایک قائد مل گیا جو تحریک کو بالآخر اس نکتے تک لے گیا کہ ایوب خان کے لیے اقتدار بحال رکھنا مشکل ہوگیا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں نے ایوب خان کے خلاف محاذ آرائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ آمر کے زوال سے ان کی سیاسی منزل کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔

15 فروری 1969ء

’’اگر تلہ سازش کیس‘‘ کے ایک ملزم سارجنٹ ظہور الحق کو جب وہ ڈھاکہ چھائونی میں فوج کے زیر حراست تھا‘ گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ بنگالیوں نے اس واقعہ کو اپنے ایک ’’ہیرو‘‘ کے عمداً قتل کا رنگ دیا اور حکومت نے اسے بھاگنے کی ناکام کوشش کا نتیجہ ٹھہرایا۔ اس واقعے سے نہ صرف ایوب خان بلکہ مغربی پاکستان کے خلاف بھی غم و غصے کا طوفان امڈ آیا۔

10 تا 15 مارچ 1969ء

فیلڈ مارشل ایوب خان نے لیڈروں سے مذاکرات کے لیے راولپنڈی میں ایک ’’گول میز کانفرنس‘‘ بلائی۔ مقصود یہ تھا کہ مخالف جماعتوں کے بڑے بڑے مطالبات مان لینے سے گلی کوچوں میں بپھرے  ہوئے لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کیا جائے۔ مغربی پاکستان کے بعض رہنمائوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ مجیب کو رہا کیا جائے تاکہ وہ جیل سے نکل کر ان مذاکرات میں شریک ہوسکے۔ اس سیاسی دبائو کے پیش نظر ’اگر تلہ سازش‘‘ کا مقدمہ واپس لے لیا گیا۔ مجیب نے 10 مارچ کو ڈھاکہ میں لوگوں کے ایک عظیم ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ دونوں صوبوں میں مساوات (PARITY) کا اصول اب مشرقی پاکستان کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اب مشرقی پاکستان کو آبادی (65 فیصد) کے لحاظ سے نمائندگی ملنی چاہیے۔مجیب الرحمان ڈھاکہ میں یہ اعلان کرکے راولپنڈی آئے اور کانفرنس میں شریک ہوئے، مگر یہ تجربہ کارآمد ثابت نہ ہوا۔

25 مارچ 1969ء

فیلڈ مارشل ایوب خان نے حکومت کی باگ ڈور فوج کے سربراہ جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے سپرد کردی۔ یحییٰ خان نے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا۔ 24 گھنٹوں کے اندر اندر گلی کوچوں کا ہیجان ختم ہوگیا۔ سکون لوٹ آیا۔

28 نومبر 1969ء

جنرل یحییٰ خان نے ’’ایک آدمی ایک ووٹ‘‘ کے اصول کو تسلیم کرلیا۔ یہ اقدام مجیب کے حق میں تھا، مگر اس پر مغربی پاکستان کے لوگ ناخوش تھے کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اس صورت میں بنگالیوں کو غلبہ حاصل ہوجائے گا۔ جنرل یحییٰ خان نے ’’ون یونٹ‘‘ کو بھی توڑ کر پرانے چاروں صوبوں کو بحال کردیا۔

یکم جنوری 1970ء

پہلے عام انتخابات کی تیاری کے لیے سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے دی گئی۔ انتخابات سال کے آخری حصے میں منعقد ہونا تھے۔

انتخابات کے نتیجے میں عوامی لیگ متحدہ پاکستان کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ، جبکہ پیپلز پارٹی کی پوزیشن دوسری تھی ۔ مگر اکثریت کسی بھی پارٹی کو بھی حاصل نہیں تھی ، شیخ مجیب الرحمان کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کو چونکہ سب سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں لہٰذا حکومت سازی کی دعوت اسے دی جانی چاہیے کیونکہ وہ دوسری پارٹیوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنا سکتا ہے جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کے بغیر حکومت نہیں بنائی جاسکتی یہاں فیصلہ کن کردار اس وقت کے صدر جنرل یحیٰ خان کے ہاتھ میں تھا جنھوں نے اصولی راستہ اختیار کرتے ہوئے حکومت سازی کی دعوت دینے کے بجائے فیصلے میں غیر معمولی تاخیر کر دی اس کا نتیجہ بنگال میں فوجی کاروائی کی صورت میں نکلا، بھارت حالات کے اس نہج تک پہنچنے کا منتظر تھا ۔ سرحد پار بھارتی فوجی کاروائیوں میں تیزی آتی گئی جو جلد کھلی جنگ میں تبدیل  ہو گئی ۔ یوں بنگلہ دیش بننے کی راہ ہموار ہوتی چلی گئی ۔ اور بالآخر  16دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان میں پاک فوج نے فاتح بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔

ایک جرنیل اورایک سیاستدان کے تاثرات

میجر جنرل (ر) شوکت رضا مرحوم اپنی کتاب “The Pakistan Army 1966-71″ میں لکھتے ہیں:

’’21نومبر1970ء کو 14ڈویژن کو سیلاب زدگان کی مدد کا کام سونپا گیا۔ صرف دو ایم آئی 8- قسم کے ہیلی کاپٹر میسر تھے جن میں سے ایک کو فنی خرابی کے باعث خطرناک قرار دیاجا چکا تھا لیکن لیفٹیننٹ کرنل بابر اور میجر باجوہ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اس ہیلی کاپٹر کے ذریعے چار ککری مکری کے دور دراز جزیرے تک امدادی کارروائیاں کیں۔ ایک ہفتے بعد تیسرا ہیلی کاپٹر پہنچا تو خراب کو مرمت کے لیے گرائونڈکردیا گیا۔ مقامی پریس شور مچا رہا تھا کہ فوج امدادی کارروائیاں کرے لیکن جب یہ کام بڑی مہارت اور لگن کے ساتھ انجام دیا گیا تو پریس نے فوج کے حق میں ایک لفظ نہیں کہا۔ پاتوا کھلی کے مقام پر فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ امدادی کام کررہی تھی۔ شیخ مجیب الرحمن فوج کے جذبے سے متاثر ہوئے اور اس رجمنٹ کے کمانڈنگ آفیسر جو ایک بنگالی تھا، سے کہا کہ فوج شاندار انداز میں امداد اور بحالی کا کام کر رہی ہے۔ اس افسر نے جواب میں شیخ مجیب سے کہا ’’سر، آپ یہی بات پریس  کے لوگوں کو کیوں نہیں کہتے۔ شیخ مجیب کا جواب تھا ’’اوہ۔۔۔۔ یہ معاملہ دوسرا ہے۔‘‘

٭…1968ء کے آغاز میں مشرقی پاکستان اُردو اور انگریزی کے سائن بورڈز کی جگہ بنگلہ زبان کے بورڈ لگا دیئے گئے تھے۔ 1970ء کے آغاز میں مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کے لیے اکیلے یا چھوٹے گروہوں میں باہر نکلنا ناممکن ہوچکا تھا۔ ڈھاکہ شہر میں دو فوجیوں کو خنجر گھونپ کر ہلاک کردیا گیا جو فیل خانہ میں ایسٹ پاکستان رائفلز کا مینا بازار دیکھنے گئے تھے۔ اس واقعہ کے بعد فوج کو حکم دیا گیا کہ مکمل اسلحہ اور یونیفارم کے بغیر کوئی باہر نہ جائے اور تعداد ایک سیکشن سے کم نہ ہو۔

٭… شیخ مجیب اور ذوالفقار علی بھٹو نے  اس مشکل ترین اور انتہائی خطرناک سیاسی صورتحال میں جنرل یحییٰ خان کا کام آسان کرنے کی ذرا بھر کوشش نہیں کی۔ اس کے برعکس ان دونوں نے اس خلیج کو وسیع سے وسیع تر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ درحقیقت دونوں اقتدار چاہتے تھے اور وہ بھی فوری طور پر۔

جنرل شوکت رضا نے مشرقی پاکستان میں فوجی حکمت عملی کے حوالے سے کیا خوب تجزیہ کیا ہے:



٭… ’’زمین کے بدلے وقت حاصل کرنے کی حکمت عملی نے فوجی کمان کے بنیادی ڈھانچے کی شکست و ریخت کے عمل کو تیزتر کردیا تھا۔ جہاں کہیں ہماری فوج اس ڈھانچے کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہی بھارتی فوج کو لوہے کے چنے چبانا پڑے۔ مشرقی کمان کی ’’زمین کے بدلے وقت‘‘ کی حکمت عملی میں کوئی دانش مندی نہ تھی۔ اس کے باعث کمان کا بنیادی ڈھانچہ زمین بوس ہوگیا۔ زمین ہماری تھی نہیں کہ اس کے بدلے وقت حاصل کرتے اور وقت یقینا ہمارے ساتھ نہ تھا۔‘‘

بزرگ سیاستدان اور پاکستان کی تاریخ کے اہم واقعات کے عینی شاہد سردار شیر باز خان مزاری اپنی سوانح “A Jouraney to Disillusionment” میں لکھتے ہیں:

٭…’’اپنے پیش رو جنرل ایوب خان کے برعکس جنرل یحییٰ خان کو پوری افواج پاکستان کا اعتماد حاصل نہیں تھا بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ وہ فوج کی اعلیٰ قیادت کے ایک مخصوص گروہ کے چیف تھے۔ یا تو وہ اسے ضروری نہیںسمجھتے تھے یا پھر ان میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ اپنی برتر حیثیت کو تمام اعلیٰ افسروں پر نافذ کرسکتے۔ آنے والے مہینوں میں پیرزادہ، حامد اور عمر سمیت کئی جرنیلوں نے خفیہ طور پر اپنے پسندیدہ سیاسی رہنمائوں کے ساتھ میل ملاپ کے ذریعے اپنے ذاتی مقاصد کو آگے بڑھانے کا کام شروع کردیا۔‘‘

٭…’’جنرل یحییٰ کے نزدیک سب سے اہم مسئلہ مجیب الرحمن کے ساتھ مذاکرات تھا۔ یعنی کیا وہ اپنے چھ نکات پر نظرثانی کرے گا یا نہیں۔ جی ڈبلیو چودھری کے مطابق اکتوبر1969ء کو مجیب نے ڈھاکہ میں جنرل یحییٰ سے کہا تھا کہ 6نکات کوئی قرآن نہیں جنہیں بدلا نہ جاسکے۔ جنرل یحییٰ نے مجیب پر مکمل یقین کیا اور اس تاثر کے خلاف جو بھی شہادت سامنے آئی وہ اسے مجیب کی سیاسی مجبوری قرار دے دیتے۔ 1971ء میں الیکشن سے قبل جنرل یحییٰ کی مجیب سے جو ملاقات ہوئی اس میں جنرل یحییٰ پر کھلا کہ انہیں مکمل طور پر دھوکہ دیا گیا ہے۔‘‘

٭…’’محمد خان رئیسانی نے کوئٹہ میں شیخ مجیب کے اعزاز میں ایک عشایئے کا اہتمام کیا تھا۔ اس موقع پرمحمد خان رئیسانی کو نواب اکبر بگٹی کے مشورے پر عوامی لیگ بلوچستان کا صدر بنایا گیا۔ اس سے قبل میں شیخ مجیب سے دوبار مل چکا تھا۔ ان دونوں ملاقاتوں میں اس شخص نے مجھے رتی برابر متاثر نہیں کیا۔ میرا تاثر یہی رہا کہ اس شخص کو قائدانہ صلاحیتوں کے بجائے موزوں اور موافق حالات نے اس مقام پر پہنچایا ہے اور جہاں تک اس کی صلاحیتوں کا تعلق ہے تو مجمع کو بھڑکانے والی تقریروں پر اسے غضب کا ملکہ حاصل تھا۔وہ احتجاج کا ماہر تھا۔‘‘

بھارت کی قید میں صدیق سالک کو جنرل نیازی کا انٹرویو

سوال: کیا آپ نے جنر ل یحییٰ یا جنرل حمید کو کبھی صاف صاف بتایا تھا کہ آپ کو جو وسائل دیئے گئے ہیں وہ مشرقی پاکستان کے دفاع کے لئے ناکافی ہیں؟

جواب: کیا وہ سویلین ہیں؟ کیا انہیں نہیں معلوم کہ اندرونی اور بیرونی خطرات سے مشرقی پاکستان کو بچانے کے لئے تین انفنٹری ڈویژن ناکافی ہیں؟

سوال: مگر یہ الزام تو ہمیشہ آپ  پر ہی رہے گاکہ آپ مشرقی پاکستان کا دفاع نہ کر سکے۔اگر کم وسائل کے پیش نظر آپ کے خیال میں دفاعی قلعوں والی اسٹرٹیجی بہترین حکمت عملی تھی تو کیا وجہ ہے کہ آپ نے ڈھاکہ کو دفاعی قلعہ نہ بنایا جہاں فوج کی ایک کمپنی بھی نہ تھی؟

جواب: یہ سب راولپنڈی والوں کا قصور ہے۔ انہوںنے مجھے نومبر کے وسط میں آٹھ پلٹنیں بھیجنے کا وعدہ کیا تھا‘ مگر صرف پانچ بھیجیں۔ میں باقی تین کا انتظار کرتا رہا کہ وہ آئیں تو انہیں ڈھاکہ کے دفاع کے لئے استعمال کروں گا۔

سوال: لیکن 3 دسمبر کو جب آپ پر واضح ہو گیا کہ اب مزید نفری آنا ناممکن ہے‘ تو آپ نے کیوں نہ اپنے وسائل میں سے کچھ جمعیت ڈھاکہ کے لئے مخصوص کر لی؟

جواب: دراصل اس وقت حالات ایسے ہوگئے تھے کہ کسی محاذ سے ایک کمپنی بھی نکالنا مشکل تھا۔

سوال: جو تھوڑے بہت وسائل آپکے پاس موجود تھے‘ اگر آپ ان کو بھی صحیح طور پر استعمال کرتے‘ تو جنگ کچھ دن اور جاری رہ سکتی تھی؟

جواب: مگر اس کا کیا فائدہ ہوتا؟ ڈھاکہ کی اینٹ سے اینٹ بج جاتی‘ گلیوں میںلاشوں کے انبار لگ جاتے‘ نالیاں اٹ جاتیں‘ شہری زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی۔ لاشوںکے گلنے سڑنے سے طاعون اور دوسری بیماریاں پھوٹ پڑتیں۔ اس کے باوجود انجام وہی ہوتا! میں نوے ہزار بیواؤں اور لاکھوں یتیموں کا سامنا کرنے کے بجائے نوے ہزار قیدی واپس لے جانا بہتر سمجھتا تھا۔

سوال: اگرچہ انجام وہی ہوتا‘ مگر تاریخ مختلف ہوتی۔ اس سے پاکستان کی عکسری تاریخ میں ایک سنہرا باب لکھا جاتا۔ آئندہ دشمن کو ہماری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہ ہوتی۔

جنرل نیازی خاموش رہے۔

خبر: ایکسپریس 




Recommended For You

Leave a Comment