پنڈی دھرنا اور تحریک لبیک یا رسول اللہ

Rawalpindi Protest and Tehreek e Labaik Ya Rasool Allah
(تحریر، محمد طارق )
اسلام آباد اور روالپنڈی کے بارڈر پر جاری تحریک لبیک یا رسول اللہ کا دھرنا ثابت کر رہا ہے ، کہ جب حکومت اور حکومتی اداروں کی بھاگ ڈور ذاتی مفادات کے حصول کے لیے اقتدار میں آنے والوں لوگوں کے ہاتھ میں ہوگی ، تو پھر ملک و معاشرے بے مقصد راہوں کے مسافر ہونگے – پچلھے 15 دن سے جاری پنڈی دھرنے نے پاکستانی جعلی جمہوریت کے چمپیئن سیاستدانوں کا سارا پول کھول دیا، کہ سیاست دان جو عوام کے مسائل کو حل کرنے کے نام پر اقتدار کے ایوانوں میں آتے ہیں، لیکن اصل میں یہ لوگ اپنی سیاسی پارٹی لیڈروں کے غلام ہوتے ہیں، یہ جمہوریت جمہوریت کا راپ الاپنے والے سیاسی لیڈر نہ اپنی پارٹی ممبران، نہ اپنے قومی و اسمبلی ممبران کی کوئی تربیت کرتے ہیں، نہ ان کو بنیادی جمہوریت روایات سے آشنا کراتے ہیں، نہ ان کو یہ بتایا جاتا ہے کہ پارلیمان میں آکر آپ لوگوں نے کرنا کیا ہے ، ہاں پارٹی اجلاسوں میں یہ ضرور بتایا جاتا ہے کہ آپ نے پارٹی پر مسلط ہوئے آمر لیڈر یا اس کے خاندان کے حق میں پارٹی اجلاسوں، پریس کانفرنسوں میں کتنی بار ان کا نام لے کر انہی آمر لیڈروں کو قوم کا نجات دہندہ بنانا ہے ۔

اسی سوچ ، اسی تربیت کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ پنڈی دھرنے کو ختم کروانے کے لیے اب ہزاروں بے گناہ جانوں کی قربانی دینا پڑے گی، انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ملکی معاشی کتنا نقصان ہو رہا ہے وہ ایک الگ داستان ہے – اگر پنڈی دھرنے کے بیک گراؤنڈ محرکات دیکھیں جائے تو آپ کو صاف نظر آئے گا کہ پاکستان کی پارلیمان میں براجمان لوگ کتنے اجڈ، غیرسنجیدہ اور سیاسی و انتظامی امور میں کتنے کم علم ہیں- کہ جب وزیر قانون زاہد حامد انتخابی اصلاحات کے مسودے کو پارلیمان میں پیش کررہا تھا ، کس طرح زاہد حامد صرف اپنی پارٹی، اپنے پارٹی لیڈر کو دوبارہ اقتدار میں لانے کی خاطر اپنے ایم این ایز سے ووٹنگ کے لیے ہاں کروائی جا رہا تھا ، اپنی عددی اکثریت سے اس دن زاہد حامد نے آئین میں تبدیلی تو کروالی، لیکن شاید اسے یہ معلوم نہ تھا کہ عوام ایم این ایز کی طرح سو نہیں رہی ہے ، اسی آئین ترمیم پر شیخ رشید نے اسمبلی میں آواز اٹھا کر میڈیا، اور پبلک میں ایک بحث کا آغاز کروادیا ، پبلک میں بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس آئین ترمیم سے یہ بات کھلنا شروع ہوگئی کے حکومت وقت ختم بنوت قوانین اور بلاس فامی قوانین کو ختم کرنا جا رہی ہے، ظاہر ہے جب مسلمان یہ بات سنے گے پڑھے گے تو پھر ردعمل آئے گا ، اس ردعمل سے لبیک یا رسول اللہ کا دھرنا شروع ہوا ، جو اب آہستہ آہستہ حکومت کو بند گلی کی طرف لے کر جا رہا ہے ، شروع میں حکومت یہ سمجھ رہی تھی کہ دھرنے والے 2 ، 4 دن بعد تھک ہار کر واپس چلیں جائیں گے، اب حکومت اس کھوج میں لگی ہوئی ہے دھرنے کے قائدین کا بیانیہ سخت سے سخت ہوتا جا رہا ہے ، جبکہ حکومت خود 2 قدم پیچھے کی طرف ہو رہی اور دھرنے کے شرکاء کو ہر روز نئی ڈیڈلائن دیے جا رہی ہے – اب دھرنے کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ، حکومت کو سمجھ لینا چاہیے کہ پبلک کے سامنے یہ معاملہ اب ختم نبوت کے اقرار وانکار کے طور پر پیش ہو رہا ہے ، اس لیے اب یہ دھرنا اتنی آسانی سے ختم ہونے والا نہیں، حکومت کے گلے میں خودکش پھندا جو ان کے اپنے ہی قومی اسمبلی کے ممبران کی پارلیمان میں غیر سنجیدہ عمل ، بغیر پڑھے ، پارلیمان میں بغیر بحث کرائے ، ممبران سے جلدی ہاں کی وجہ سے ان کے گلے میں پڑ گیا ہے – حکومت کے پاس اب ایک ہی آپشن بچا ہے کہ وہ کسی طرح اس آئینی مسودے کے آیئڈز کے خالق ، اس مسودے کی عبارت لکھنے والوں کو سامنے لائیں، اور ان سے ان کے عہدے سے استعفی لے ، اگر حکومت ایسا نہیں کریں گی تو پھر پنڈی سے شروع ہونا والا دھرنا حکومت کا خاتمے کا باعث بن جائے گا، ساتھ ہی الیکشن 2018 میں مسلم لیگ ن گستاخ لیگ بننے کے لیے تیار ہو جائے ۔

 
 
 
 




Recommended For You

Leave a Comment