مراکش کا سفر چار نومبر سے گیارہ نومبر تک

This slideshow requires JavaScript.

 

تحریر: محمد طارق
سنسن کرکٹ کلب ناروے کا دوسرا پرانا کلب یے ، جس کی بنیاد 1986 میں چند نوجوانوں نے رکھی تھی ، 1986 سے لیکر 2017 تک سنسن( Sinsen ) کرکٹ کلب مقامی نارویجین کرکٹ لیگ کھیلنے کے ساتھ ہر سال بیرون ملک ٹور کرتا ہے ، امسال کرکٹ کلب نے 2 ٹور آرگنائزر کیے ، پہلا ٹور ہالینڈ کا کیا گیا ، جہاں پر سنسن کے نوجوان کھلاڑیوں نے حصہ لیا اور میچز کھیلے، دوسرا ٹور پرانے کھلاڑیوں کے لیے مراکش کے شہر آگادیر میں آرگنائزر کیا، آگادیر ٹور میں کرکٹ گراونڈ نہ ہونے وجہ کی سے کوئی میچ نہ کھیلا جا سکا ، لیکن کاسا بلانکا کرکٹ کلب ، سنسن ( Sinsen) کرکٹ کلب کے نمائندوں کے درمیان مختلف مینٹگز ہوئی ، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ سنسن کلب کس طرح مراکش کی کرکٹ کو بہتر کرنے میں کیا مدد کرسکتاہے ، اس سلسلے کا پہلا قدم سنسن کرکٹ کلب نے کاسا بلانکا کرکٹ کلب کو سامان ، جس میں بیٹ، بالز ، یونیفارم دیے، آنے والے وقتوں میں سنسن کے کوچز کاسا بلانکا کے کھلاڑیوں کو ٹریننگ دیں گے – مراکش معاشی طور پر دنیا کے بڑے معاشی مضبوط ممالک کے مقابلے میں کمزور ملک ہے ۔

آگادیر ریجن جغرافیائی طور پر مراکش کے جنوب مشرقی حصے میں واقع ہے ، آگادیر ایک ٹورسٹ اسپاٹ ہے ، جہاں پر ہر سال لاکھوں سیاح مختلف مغربی ممالک سے آتے ہیں، عرب ممالک سعودی عرب، دبئ، کویت ، قطر سے بھی سیاح آگادیر کا رخ کرتے ہیں – مراکش میں دبئی کی طرح حکومت نے مخصوص جگہوں پر مےخانوں کی اجازت دی ہوئی ہے ، مے خانوں کے ساتھ ساتھ حکومتی سرپرستی میں ہر بڑے شہر میں Casino ( جوئے خانے) کے اڈے بھی چل رہے ہیں، جوئے خانوں میں غیر ملکی سیاحوں کے علاوہ مقامی خواتین و مرد بھی ہر روز اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے قسمت آزمائی کرتے ہیں- بقول بادشاہ کے حکومت نے مساجد بنادی ہیں، مےخانوں کی ، جوئے خانوں کی سہولت میسر کردی ہے، اب انسان پر خود منحصر ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتا ہے ، مقامی لوگوں کے مطابق دوسرے مذاہب کے سیاح کو مراکش میں لانے کی کے لیے، مقامی آبادی کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے حکومت کو با امر مجبوری ایسے اقدامات کرنے پڑھتے ہیں، اب حال یہ ہے کہ مشرقی وسطی میں امن عامہ کی خراب صورتحال ہونے کی وجہ سے مراکش نمبر 2 لبنان بنتا جارہا ہے- مراکش میں بادشاہی نظام ہے – بادشاہ محمد ششم پچھلے 20 سال سے اقتدار پر براجمان، سعدالدین العتمانی مارچ 2017 سے مراکش کے وزیراعظم بنے – مراکش کا نظام حکومت 4 بنیادی ستون پر کھڑا ہے ، بادشاہ، پارلیمان، حکومت، عدلیہ- مراکش میں ساری حکومتی طاقت بادشاہ کے پاس ، ساتھ ہی بادشاہ محمد ششم نے عوام پر کنٹرول رکھنے کے کیے ایک 2 نمبر جمہوری گورننگ سسٹم ملک میں رائج کیا ہوا ہے ، اس سسٹم کے تحت ملک کے 12 اضلاع میں لوکل گورنمنٹ سسٹم نافذ کیا ہوا ہے، لوکل گورنمنٹ سسٹم ، ضلعی نظام حکومت انتخابات کے ذریعے مکمل کیا جاتا ہے ، جس میں عوام جمہوری طریقے سے اپنے اپنے ضلع کی حکومت منتخب کرتے ہیں – نچلی سطح پر بادشاہ نے قومی حکومت کے ساتھ مل کر عوام کو اقتدار میں شریک کیا ہے – قومی سطح پر قومی حکومت پارلیمان سے اکثریت رکھنے والی پارٹی کو حکومت سونپی جاتی ہے ، لیکن یہاں پر آئین مراکش کے تحت بادشاہ کو بہت زیادہ اختیارات دیئے گئے ہیں، یا بادشاہ نے زیادہ آیئنی اختیارات اپنے پاس رکھے ہیں، قومی انتخابات کے بعد جب نئی حکومت فورم کی باری آتی ہے تو اس وقت اکثریت رکھنے والی پارٹی یا اکثریت رکھنے والے اتحاد کو بادشاہ حکومت بنانے کی دعوت دیتا ہے ، ساتھ ہی بادشاہ نے وزیراعظم اور دوسری بڑی وزارتوں کا انتخاب کا اختیار اپنے پاس رکھا ہے ہوا ہے ، اکثریتی پارٹی کے نمائندے اپنا وزیراعظم کا امیدوار خود نامزد نہیں کر سکتے بلکہ بادشاہ وزیراعظم کا نام خود نامزد کرتا ہے ، جس کے بعد قومی اسمبلی سے اس وزیراعظم کے لیے اعتماد کا ووٹ لیا جاتا ہے ، وزیراعظم کے انتخابات کے بعد حکومتی کابینہ وزیراعظم اور بادشاہ مل کر بناتے ہیں، مراکش میں بادشاہ قومی سطح کی حکومتی پالیسیوں میں مکمل شریک ہوتا ہے – مراکشی معاشرے میں سیاسی نظریاتی، مذہبی تقسیم بہت کم دیکھنے میں نظر آئی ، 98 % مسلمان ہیں، زیادہ تر لوگ مالکی سنی مسلک سے منسلک ہیں ، شیعہ کی آبادی 2 % ، عیسائی آبادی بہت کم ، 1 % یہودی جو اسلام آنے سے پہلے آباد ہیں ، ان کی نسل یہاں رہ رہی ہے – حکومت نے مذہبی اداروں، مساجد پر کڑی نظر رکھی ہوئی ، مساجد ، مذہبی اداروں کو سیاسی، انتظامی معاملات پر کھلم کھلا بات کرنے ، تقاریر کرنے کی اجازت نہیں، جمعہ کے خطاب اور دوسرے اسلامی تہواروں پر حکومت کی طرف سے دیا گیا خطبہ اور دی گئی معلومات ہی پبلک کے سامنے شیئر کرنے کی اجازت ہے – مراکشی عوام عمومی طور پر رجعت پسند نہیں ، اکثریتی لوگ مغربی بودوباش اپنائے ہوئے ہیں، ملک میں فرانسیسی ثقافت کی جھلک واضع نظر آتی ہے ، یہ جھلک آپ کو مقامی میڈیا، ادب ، انتظامی معاملات، تجارت، صنعت ،نظام تعلیم میں نظر آئے گی ، مقامی مراکشی لوگ انگریزی زبان سے بہت کم واقفیت رکھتے ہیں، جبکہ ہر مراکشی جو 6، 7 سال سکول گیا ہوا ہے فرانسیسی زبان بول، پرھ، لکھ سکتا ہے – دوسری طرف مراکش کی معیشت میں فرانس ایک اہم ایکٹر ہے ، فرانسیسی کمپنیاں ہر بڑے پروجیکٹ پر مراکش میں کام کر رہی ہیں، فرانسیسی کمپنیوں نے مراکشی ٹیلی کام، ٹرانسپورٹ، بجلی، پانی ، گندگی کوڑا کرکٹ کو سنبھالنے کے سیکٹر پر بڑی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے ، ان سکیٹر ز پر فرانسیسی کمپنیوں کی تقریبا اجاراداری ہے – مقامی لوگ بنسبت مراکش کی کمپنیوں کے فرانسیسی کمپنیوں میں کام کرنے کو ترجیج دیتے ہیں- کیونکہ بقول ان لوگوں کے فرانسیسی کمپنیاں مزدور کو اچھی تنخواہیں، پنشنرز ،بیماری پر انشورنس کی سہولیات دینے کے ساتھ ،مزدور کو ترقی کرنے کے ہر قسم کے مواقع فراہم کرتے ہیں ۔

مراکش عرب ممالک میں واحد ملک ہے ، جہاں پر دہشت گردی، سیاسی شورش کم ہے ، اس کی بنیادی وجہ بادشاہ محمد ششم کا گورننگ ماڈل ہے جس کو جمہوریت کا لباس دے کر عام عوام کو کچھ نا کچھ نچلی سطح پر اقتدار میں بذریعہ انتخابات شریک کیا ہوا ہے – مراکش میں جو سب سے اچھی چیز دیکھنے میں آئی کہ بجلی کا شاٹ فال نہیں، کوڑا کرکٹ گندگی کو سنبھالنے کا نظام موجود ہے ، کوڑے ، گندگی کو مقامی بلدیہ خود روزانہ کی بنیاد پر سڑکوں ، گلیوں سے اٹھاتے ہیں- اس لیے شہر، محلوں کی گلیاں، سڑکیں پاکستان کی بنسبت صاف دکھائی دیتی ہیں- شہروں سے باہر گاوں چھوٹے قصبوں میں صفائی کوڑے کو سنبھالنے کا انتظام ناقص ہے، جس کی وجہ سے کوڑے کے ڈھیر کھیتوں ، سڑکوں کے کناروں میں نظر آئے ، پلاسٹک کی بوتلیں قصبوں کے باہر بکھری ہوئی پڑی تھی – مراکش کا ویسٹ مینجمینٹ سسٹم ترکی کے ویسٹ مینجمنٹ کے مقابلے میں کافی کمزور اور ناقص ہے – ماحولیاتی آلودگی سے بچنے، گندے پانی کی نکاسی کا بہتر اسٹرکچر قائم کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے پورے مراکش میں پلاسٹک کے شاپنگ بیگز پر پابندی لگا دی ہے ، ساتھ ہئ دوکانداروں کو تلف ہونے والے شاپنگ بیگز گاہکوں کو دینے کی سختی سے ترغیب دی ہے ، اب دوکاندار اپنے گاہکوں کو کاغذ، کاٹن کے میٹیریل سے بنے ہوئے شاپنگ بیگز سودا سلف ڈالنے کے لیے دیتے ہیں – یہ شاپنگ بیگز چند دن کے بعد قدرتی طور پر گل سڑ ہونا شروع ہوجاتے ہیں، اس قدرتی تلف ہونے کی صلاحیت ہونے کی وجہ سے شہروں میں گندے پانی کے گٹرز اور سیوریج کے نظام میں کوئی خلل نہیں پڑتا – جس سے گندے پانی کا بھاو رواں دواں رہتا ہے، جو آگے چل کر آلودگی ، بیماریاں کم کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔

دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح مراکش کی حکومت اور عوام ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرسکے کہ کسی ملک کی ترقی میں یکساں بنیادی نظام تعلیم ، یکساں نصاب کتنا اہم کردار ادا کرتے ہیں، مراکش کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ، لیکن مراکش حکومت کی تعلیم سے بے اعتنائی کی وجہ سے تعلیم کے قومی بجٹ میں اضافہ نہیں کیا جارہا ہے ، جس کی وجہ سے سرکاری پبلک سکولوں کی کارکردگی پر بڑا منفی اثر پڑ رہا ہے ، یعنی پرائمری ، ہائی پبلک سکولوں میں ایک ایک کلاس میں 100 ، 100 طالب علم ، اور صرف ایک استاد ، سرکاری سکولوں کے کمرے تنگ، اور سب سے بری بات کہ استاد دل لگی سے طالب علموں کو پڑھا نہیں رہے ، جس کی وجہ سے معاشرےمیں تعصب اور سماجی ناانصافی میں اضافہ ہورہا، کیونکہ سرکاری پبلک کی سکولوں کی کمزور حالت دیکھ کر اچھی آمدن والے لوگ اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں بھاری فیسیں دے کر بھیج رہے ہیں تاکہ ان کے بچوں کا مستقبل محفوظ ہو سکے ۔

مراکش میں پہلے نمبر پر فرانسیسی پرائیویٹ سکول ہیں، دوسرے نمبر پر امریکن انگلش پرائیویٹ سکول ، تیسرے نمبر پر اسپینش پرائیویٹ سکول اور کچھ مذہبی سکول ہیں- پرائیویٹ، سرکاری پبلک سکولوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پر سوشل سائنسز، تعلیم کے ماہرین بڑے فکرمند ہیں ، یہ ماہرین آج کل مختلف کانفرنسوں ، مینٹگز، میڈیا کہ ذریعے وفاقی محکمہ تعلیم پر دباو ڈال رہے ہیں کہ سرکاری تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے، سرکاری سکولوں کے نصاب میں نئے دور کے تقاضوں کے مطابق تبدیلی کی جائے، سائنسی و ہنر مند تعلیم پر فوکس کیا جائے ، ساتھ ہی پرائویٹ سکولوں کے نصاب کو سرکاری پبلک سکولوں کے نصاب کے مطابق کیا جائے ، تاکہ پورے ملک میں بنیادی تعلیم ایک ہی نصاب کے تحت دی جائے، اگر وفاقی حکومت نے اس بارے میں جلد قدم نہ اٹھایا تو مستقبل میں مراکش معاشرہ ذہنی طور پر تقسیم ہوجائے گا ، جس سے ملک میں خانہ جنگی کا امکان بڑھ جائے گا ۔

سیکورٹی کنٹرول، مراکش حکومت ٹورسٹ کو مکمل تحفظ فراہم کرتی ہے ، اس کا عملی نمونہ ہم نے اس وقت دیکھا جب ہمارے دوست نبیل مغل ایک دن لوکل ٹیکسی میں اپنا موبائل فون بھول گئے ، اس دن جب نبیل صاحب ٹیکسی سے نیچے اترے تو اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو موبائل فون کو غائب پایا، نبیل صاحب اسی وقت ہوٹل کے مین گیٹ کی طرف دوڑ ے تاکہ ٹیکسی کے بارے میں معلومات حاصل کر سکے – ہوٹل کے مین گیٹ پر کھڑے سیکورٹی گارڈز نے نبیل صاحب کو یقین دلایا کہ وہ ان کے فون ڈھونڈنے میں ہر قسم کی مدد کریں گے – سیکورٹی گارڈز نے اپنی ورک روٹین کے مطابق ہوٹل کے اندر اور باہر جانے والی ہر گاڑی کی مکمل تفصیل اپنے رجسٹر میں تحریر کرتے ہیں، کہ گاڑی کا نمبر کیا ہے ، گاڑی میں کتنے مسافر تھے، کون کون سے مسافر تھے، عورت تھی، مرد تھا ، کتنے بجے گاڑی گیٹ کے سامنے سے گذر ی – اسی رجسٹرڈ معلومات کے تحت سیکورٹی گارڈز نے مقامی پولیس سےرابطہ کیا ،پولیس نے لوکل ٹیکسی سیکٹر کو ہینڈل کرنے کے لیے ایک ٹیکسی پولیس سکواڈ تشکیل دیا ہے ، جو ٹیکسی کے ہر قسم کے معاملات پر نظر رکھتے ہیں، جب ہوٹل سیکورٹی گارڈز کا ٹیکسی پولیس سے رابطہ ہوا ، تو پولیس نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اسی وقت گارڈز کے دیے گئے گاڑی پلیٹ نمبرز سے یہ ڈھونڈ نکالا کہ ٹیکسی کا مالک کون ہے ، ٹیکسی کا کون سا ڈرائیور تھا جو اس وقت ٹیکسی چلا رہا تھا ، جس سے وقت نبیل صاحب کا فون ٹیکسی کے اندر رہ گیا ، پولیس نے 15 ، 20 منٹ کے اندر ڈھونڈ نکالا کہ موبائل فون ٹیکسی کے اندر تھا ، جس کو ڈرائیور نے سنبھال لیا تھا ، ڈرائیور نے پولیس کو کہا کہ وہ 1 گھنٹے کے اندر موبائل فون پولیس اسٹیشن دے جائے گا ، ساتھ پولیس نے ہی یہ ساری معلومات نبیل کے ساتھ بذریعہ ٹیلی فون شیئر کر دی ، ایک گھنٹے کے بعد نبیل صاحب پولیس اسٹیشن پہنچے اور ا پنے بارے میں کنسرن معلومات پولیس کو دینے کے بعد پولیس اسٹیشن سے اپنا موبائل فون واپس لے آئے ، ہمارے دوسرے سارے دوست مراکش پولیس کی بروقت ایفکٹوی کاروائی دیکھ کر بڑے متاثر ہوئے ، کہ عام طور پر دوسرے ممالک میں اتنا چھوٹے مسلئے کو پولیس سیریز نہیں لیتی اس لیے اگر موبائل ایک دفعہ آپکے ہاتھ سے نکلا تو آپ کو دوبارہ واپس کم ہی ملتا ہے ۔

لیکن مراکش پولیس نے ٹورسٹ کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے لیے لوکل ٹیکسی گاڑیوں پر سخت چیک رکھتے ہیں، اس چیک کی وجہ سے ہمارے دوست نبیل مغل صاحب کو موبائل فون 3 گھنٹے کی کاروائی کے اندر واپس مل گیا – اس مراکش دورے میں جو کھلاڑی ہمارے شریک سفر تھے ، ان میں، رخسار احمد ، سجاد حسین، ہمایوں کبیر، ذوالفقار حیدر، اعجاز احمد، شہزاد احمد،منور احمد، انور احمد، افضال احمد، امتیاز احمد، مختار چوہدری، ارشد محمد، عظمت پرویز، شہزاد جونی، نبیل محمد مغل، محمد طارق – سنسن ٹیم کے کھلاڑی اپنے 2 ساتھیوں کے بہت مشکور تھے ، جن میں ایک عظمت پرویز صاحب جو پاکستان سے خصوصی طور پر تشریف لائے ، دوسرے نبیل مغل صاحب جو انگلینڈ سے آکرمراکش ٹور میں ہمارے شریک سفر بنے ۔




Recommended For You

Leave a Comment