!ملالہ یوسفزئی: کیا ہمیں حقیقت شناسی کی ضرورت ہے


تحریر: قمراقبال (چیئرمین پاکستان یونین ناروے)

جب سے سوشل میڈیا معرض وجود میں آیا ہے، دنیا ایک دوسرے سے مزید قریب ہوگئی ہے۔ آج کسی موضوع کو پھیلانا، اس پر اپنی رائے دینا اور اس پر کھلم کھلا تبصرہ کرنا اور دوسروں کی رائے لینا، بہت ہی آسان ہوگیا  ہے۔ کوئی پاکستان میں بیٹھا شخص کسی ایک موضوع کو چھیڑ دیتا ہے تو پوری دنیا میں رہنے والے اس کے رابطے کے لوگ اور حتیٰ اس کے رابطے سے باہرکے لوگ اپنے اپنے انداز میں تبصرہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ کوئی یورپ میں بیٹھا شخص کوئی پوسٹ شیئرکرتا ہے تو پاکستان سمیت دیگر خطوں میں رہنے والے لوگ بلاخوف و خطر و خلل اس پراپنی رائے دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے آنے والی آراء مثبت اور منفی بھی ہوسکتی ہیں۔ مثبت تنقید بھی ہوسکتی ہے اور منفی تنقید بھی کی جاسکتی ہے۔ بعض لوگ تو تنقید برائے تنقید بھی کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے آنے سے ایک طرف تو لوگوں کےمابین رابطوں میں آسانی پیدا ہوگئی ہے لیکن دوسری طرف حد سے زیادہ اور بغیر قواعد و ضوابط کے بحث و مباحثے شروع ہوگئے ہیں جن کی وجہ سے معاشرہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ابلاغ کا یہ طاقتور ذریعہ ایک طرف اچھائی کو پھیلانے کا ذریعہ بن گیا ہے لیکن دوسری طرف اس نے معاشرے میں موجود انسانی اقدار اور انسان کی فطری کیفیت کو بھی متاثر کیا ہے۔ یہ ایک الگ دنیا ہے، جہاں بعض اوقات تو آپ کو کوئی پتہ نہیں کہ آپ کا مخاطب کون ہے۔ آپ کس سے بات کررہے اور اس دوسرے فرد کا بات کرنے کا مقصد کیاہے؟ کن مقاصد کے تحت موضوع چھیڑا گیا ہے اور حاصل ہونے والی آراء کن مقاصد کے لیے استعمال ہوگی۔ فیس بک پر تو بعض اوقات نام اور تصویر کسی لڑکی کی ہوتی ہے لیکن کوئی پتہ نہیں، اس کے پیچھے کوئی مرد ہو۔

اس ساری تمہید کا مقصد گذشتہ دنوں نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزیی کے دورہ پاکستان اور اس حوالے سے ریگولر میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہونے تبصروں کی طرف توجہ دلانا ہے۔ یہاں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ لوگ تو کسی مقصد کے تحت سوشل میڈیا پر موضوعات چھیڑتے ہیں لیکن بعض اوقات ایسے انسان بھی ہوتے جو کسی موضوع پر تبصرے تو ضرور کرتے ہیں لیکن وہ اصل حقائق اور اس تبصرہ کاری کے پیچھے مقاصد سے آگاہ نہیں ہوتے۔ خاص طور پر جب سے الیکٹرانیک میڈیا نے پاکستان میں مختلف سیاسی شوز شروع کئے اور ان پروگراموں کی نمائش سوشل میڈیا پر زور پکڑی ہے، ہرکوئی ضرورت سے زیادہ صاحب رائے اور دانشور بن گیا ہے۔ بغیر سوچ سمجھ کے بے لاگ تبصرے کرنا یہ نام و نہاد تجزیہ کار اپنا فرض سمجھنے لگے۔

یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ملالہ یوسفزیی ایک بہادر لڑکی ہے اور تعلیم کے فروغ کے لیے اس کی آواز اور دہشت گردی کے خلاف اس کی جرآت و ہمت قابل تعریف و مورد ستائش ہے۔ ہم اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتے کہ یورپ میں ملالہ کی پذیرائی کے پیچھے اصل حقائق کیا ہیں؟ اس کی فل پروف سیکورٹی، کڑی نگرانی اور مختلف ملکوں میں مکمل پروٹوکول کیوں دیا جاتا ہے؟ کیا یہ سب انتظامات اس کی پاکستان کے لیے خدمات کے صلے میں کئے جاتے ہیں؟ اس کی بہت سے دلیلیں اور توجیہات دی جاسکتی ہیں لیکن ہم گہرائی میں نہیں جانا چاہتے کیونکہ ہرعقل و شعور رکھنے والا انسان ہر زاویے سے اس بات کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ ہم ان افراد کی رائے کا بھی احترام کرتے ہیں جو دانستہ طور پر یا نادانی میں تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے نااہل اور بدعنوان حکمرانوں نے ملک و قوم کو تباہ و بدنام کروانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ پاکستان کے لوگ ان بیرونی طاقتوں کی کارستانیوں سے غافل ہوگئے ہیں جو پاکستان کو بدنام کرنے، اسے ناکام اور دہشت گرد ریاست قرار دلوانے میں کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔

جہاں تک انسانی خدمات کے بدلے نوبل پرائز کا تعلق ہے تو پاکستان میں خلوص کے ساتھ انسانیت کے لیے سب سے زیادہ کام تو مرحوم عبدالستارایدھی اور ان کی اہلیہ بیگم بلقیس ایدھی نے کیا مگر انسانی حقوق کے عالمی علمبردروں کو وہ نظر نہیں آئے اور انہیں کسی نے نوبل ایوارڈ نہ دیا۔ پاکستان کے ایسے بہت سے اور انسانی حقوق کے گمنام علمبردار ہیں، جنہوں نے انسانیت کے لیے بلاتفریق کام کیا۔  ان کے علاوہ بچوں اور بچیوں سمیت بہت سے ایسے لوگ پاکستان میں ہیں جو اس ملک کی بہتری کے لیے کام کررہے ہیں، ان کو عالمی سطح پر نمایاں نہیں کیاجاتا۔

جہاں  تک نوبل انعام کی موجودہ  اور ظاہری صورتحال کا تعلق ہے، ایسے نوبل ایوارڈ پر کس بات کا فخر یا اس انعام کا کیا فائدہ کہ جس کے ملنے کے بعد بھی میانمار کی موجود سٹیٹ کونسلر (وزیراعظم کے مساوی عہدہ) مس آنگ سان سوچی برما کے علاقے رخائن کے مظلوم مسلمانوں کا قتل عام روکنے  کےلیے کوئی اقدام نہ کرسکی۔ پوری دنیا کے لوگوں اور انسانی حقوق کے اداروں کی اپیلوں کے باوجود نوبل انعام یافتہ یہ خاتون اس قتل عام کی مذمت میں ایک لفظ بھی نہ کہہ سکی۔ ایک اور مثال ایران کی شیریں عبادی کی ہے جنہیں نوبل انعام ملا لیکن سوال یہ ہے کہ انھوں نے انعام لینے کے بعد اپنے ملک و قوم کے لیے کیا کارنامہ انجام دیا؟

ہماری پاکستان کے حقیقی ہمدردوں، اصل مفکروں، دانشوروں، پالیسی سازوں اور قومی سلامتی اداروں سے گزارش ہے کہ ان لوگوں کی چالوں اور کارستانیوں کو عیاں کریں جو ملک کے اندر اور باہر بیٹھ کر اپنے آپ کو پاکستان کے خیرخواہ ظاہر کرتے ہیں لیکن اصل میں وہ پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ان نام و نہاد دانشوروں پر کڑی نظر رکھی جائے اور ان عناصر کو بے نقاب کیا جائے۔ ان افراد کی بھی نشاندہی اور تنبیہ ہونی چاہیے جو ملک کے اندر بیٹھ کر پاکستان کے خلاف اور پاکستان کے دوست ملکوں کے خلاف کام کرتے ہیں۔ دیگر ممالک میں موجود پاکستان مخالف عناصر کے مکمل کوائف حاصل کرکے ان کو آشکار کیا جانا ضروری ہے اور اس کام کے لیے ان ممالک سے تعاون بھی حاصل کرنا کرنا چاہیے۔

 ہم یہاں یہ بات واضح کرنا لازمی سمجھتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ ہرکوئی ہماری آراء اور اس طرز تفکر سے متفق ہو لیکن اس بات کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ کوئی پاکستان کے نظریے کو منفی تنقید کا نشانہ بنائے۔ ہماری یہ بھی خواہش نہیں کہ کوئی ضرور ہماری رائے پر مثبت تبصرہ  قائم کرے۔ البتہ منفی سوچ والوں کی کوئی گنجائش نہیں اور انہیں اس موضوع پر تبصرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں البتہ تعمیری سوچ، مثبت اور اصلاح طلب آراء کا ہمیشہ خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔

 




Recommended For You

Leave a Comment