نارویجن پاکستانی قذافی کے دل پر کیا گزری ہوگی؟.. … …تحریر: سید سبطین شاہ

پچھلے ہفتے پاکستان کے شہر گجرات میں  ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کا چرچا ناروے میں بہت ہوا۔ خصوصاً صحافتی حلقوں کو اس بات پر بڑی پریشانی ہوئی اور پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے حوالے سے منفی تاثر ناروے کی خبروں کی زینت بنا۔ کہانی کچھ یوں کہ ناروے کے صحافی قذافی زمان جن کا پس منظر پاکستان ہے، ان دنوں اپنے والدین کے ہمراہ نجی مصروفیات کے سلسلے میں پاکستان آئے ہوئے تھے۔ اسی اثناء میں سابق وزیراعظم نوازشریف جن کے خلاف حال ہی  میں عدالت نے فیصلہ دیا، نے برطانیہ سے پاکستان آنے کا اعلان کیا۔

ان کے واپسی کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان میں ان کے حامیوں نے جلسے جلوس نکالنے شروع کردیے۔ جمعہ کے روز نوازشریف کی آمد پر بھی پاکستان کے طول و عرض میں ان کی حمایت میں جلوس نکالے گئے۔ پولیس نے ان جلوسوں کو روکنے کے لیے پکڑ دھکڑ کی۔ لاٹھی چارج کیا اور ن لیگ کے حامیوں پر چارج بھی لگائے۔

اسی طرح کا ایک جلوس گجرات میں چناب پل پر سے گزر رہا تھا کہ اسے پولیس کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی جلوس کی کوریج ناروے کے نامور صحافی قذافی زمان بھی کررہے تھے۔ پولیس نے انہیں بھی دھر لیا اور جمعہ سے پیر تک وہ تھانہ سول لائن گجرات کے حوالات میں ہیں۔

قذافی زمان جو ناروے کے سب بڑے نجی نشریاتی ادارے (ٹی وی۔۲) کے کارکن ہیں، انتہائی پیشہ ور صحافی ہیں اور صحافتی اصولوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ قذافی زمان کے ساتھ راقم کا پرانا تعلق ہے اور ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ وہ ایک بہادر صحافی ہیں اور ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا اور مشرقی وسطیٰ کے حالات پر کافی عرصے سے صحافت کرتے آرہے ہیں۔ پولیس نے ان پر بھی دیگر بلوائیوں جیسے الزامات لگائے۔ مثلاً پولیس پر حملہ و امن و امان کو نقصان پہنچانا وغیرہ۔

عینی شاہدین کے مطابق، قذافی زمان پولیس کو بتاتے رہے کہ میں ایک صحافی ہوں اور میرا تعلق ناروے کے ایک ٹی وی سے ہے۔ مجھے کیوں گرفتار کررہے ہو، وغیرہ وغیرہ لیکن پولیس نے ایک نہ سنی اور انہیں بھی مبینہ ن لیگی بلوائیوں کے ساتھ تھانے کے حوالات میں بند کردیا۔

جمعہ سے لے کر پیر تک وہ حوالات میں رہے۔ اس دوران نارویجن میڈیا نے قذافی کیس کو لے کر پاکستان کا خوب چرچا کیا۔ ہمارے بعض دوست پاکستان میں ہوں یا یورپ میں، وہ اس طرح کی خبروں کو آگے پھیلنے کی روک تھام کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ کہتے ہیں کہ اس خبر کو آگے نہ جانے دیا جائے کیونکہ اس سے پاکستان کی بدنامی ہوتی کیونکہ پاکستان کو امیج پہلے ہی خراب ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے جواب یہ ہے کہ بھائی اپنے سسٹم کو ٹھیک کرو، امیج خو بخود ہی ٹھیک ہوجائے گا۔ جب تک سسٹم خراب ہوگا، جتنا مرضی ہی پردہ ڈالتے رہے، اندر کی گندگی صاف صاف دکھائی دے گا۔ باہر کا امیج بہتر بنانے کے لیے اندر کی صفائی ضروری ہے۔




جہاں تک قذافی زمان کا تعلق ہے، وہ ایک پیشہ ور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے آبائی وطن پاکستان سے بہت زیادہ محبت بھی کرتے ہیں۔ ایسے میں جب ان کے ساتھ پاکستان میں ایسا ناگوار واقعہ ہوا ہے تو ان پر کیا گزری ہوگی؟ پولیس کے ظالمانہ رویے کا ان پر کیا اثر ہوا ہوگا۔ پھر ان کے ساتھ ایسے ناروا سلوک کی خبروں سے یورپ میں کیا تاثر ابھرا ہوگا؟

قذافی زمان تو رہا ہوجائیں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی گرفتاری اور چار دن حوالات میں رہنے سے پاکستان کے امیج کو جو ٹھیس پہچنی ہے، کیا اس کا ازالہ ہوجائے گا۔ کیا قذافی جیسے کئی پاکستانی پس منظر رکھنے والے نوجوانوں کے دلوں میں پیدا ہونے والی ناراضگی کا ازالہ ہوجائے گا۔ کیا پاکستان کی ریاست، پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس اپنے اس کئے پر شرمندہ ہوکر معافی مانگے گی؟ اگر معافی بھی مانگ لی جائے کیا تو کیا تب بھی پاکستان کے بارے میں پیدا ہونے والے منفی تاثر کو زائل کیا جاسکے گا؟  

نوٹ: مضمون نویس سینئر پاکستانی صحافی ہیں اور صحافت کے ساتھ ساتھ آج سیکورٹی معاملات پر ریسرچ کررہے ہیں۔ 

Recommended For You

Leave a Comment