مشہور فرانسیسی پروفیسر سے پاکستانی ریسرچر کا مکالمہ: یورپ میں دہشت گردی میں مسجد کا کردار سب سے کم ہے، پروفیسر اولیور روئے

This slideshow requires JavaScript.

 اوسلو (خصوصی رپورٹ)

مشہور فرانسیسی پروفیسر ڈاکٹر اولیور روئے نے کہاہے کہ یورپ میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کو ہوا دینے میں مسجد کا کردار سب سے کم ہے۔

وہ اس ہفتے ناروے کے بین الاقوامی امور پر تحقیقی ادارے ’’نوپی‘‘ میں ’’یورپی معاشرے میں اسلامسٹ ریڈیکلزم کے محرکات‘‘ کے موضوع پر خطاب کررہے تھے۔

انھوں بتایاکہ یورپ میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کو پھیلانے میں سب سے زیادہ جیل کا کردار ہے، اس کے بعد مارشل آرٹ کے ادارے اور آخر میں مسجد ہے۔

اس دوران پاکستانی ریسرچ سکالر اور سینئرصحافی سید سبطین شاہ نے کہنہ مشق فرانسیسی پروفیسرسے استفسارکیا کہ مسلمان نوجوانوں میں انتہاپسندی کے فروغ میں جیل نے سب سے زیادہ کردار کس طرح ادا کیاہے؟

فرانسیسی پروفیسر جو انتہاپسندی اور دہشت گردی کے موضوع پر متعدد کتابوں اور تحقیقی مقالوں کے منصف ہیں، نے بتایاکہ یورپ کی جیلوں میں پہلے ہی بڑی تعداد میں مسلمان نوجوان موجود تھے۔ اور پھر جیل ایک پرتشدد جگہ ہے۔ اگرآپ اکیلے ہیں تو اور زیادہ تنگی محسوس کریں گے۔ جیلوں میں جاکر کئی لوگ متحرک ہوجاتے ہیں اور وہاں پر ہی بہت سے چیزیں سیکھتے ہیں۔ وہاں پر بمب بنانا بھی سیکھ سکتے ہیں اور ویسے بھی جیل میں لوگوں کو راغب کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔

اس طرح کے ماحول کی وجہ سے جیل میں ایک کاونٹر سوسائٹی جنم لیتی ہے۔ ایک مثال دیتے ہوئے یورپی یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ فرانس کے پروفیسرنے کہاکہ جیل میں کوئی کالا ہے، کوئی سفید ہے، کوئی مسلمان ہے اور کوئی دوسرا، سب اپنی اپنی سوسائٹیاں بنا لیتے ہیں۔ جیل کا ماحول نفسیاتی طور پر اور عملی طور پر لوگوں کو راغب کرتاہے۔

دوسری جگہ مارشل آرٹ کے ادارے ہیں جو لوگوں کو جسمانی تربیت کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرتے ہیں۔ کئی مسلمان نوجوان دہشت گردوں کی ویڈیو دیکھ کر مارشل آرٹ سیکھنے گئے۔ جہاں تک مسجد کا تعلق ہے، یہ لوگ مسجد کے رکن ہی نہیں رہے اور حتیٰ کہ کبھی کبھار مسجد گئے تھے۔ اسی لیے مسجد کا کردار اس سلسلے میں بہت ہی کم ہے۔

پاکستانی ریسرچر سید سبطین شاہ جو مذہبی انتہا پسندی اور پاکستان کی قومی سلامتی سمیت سیکورٹی ایشوز پرتحقیق کررہے ہیں، نے فرانسیسی پروفیسر سے یہ بھی پوچھا کہ کیا بعض یورپی مسلمان داعش کے تکفیری نظریات کی وجہ سے شام گئے یا پھر ان کے لیے داعش کے سیاسی عزائم زیادہ اہم تھے؟ اس کے علاوہ داعش اور القاعدہ کے طریقہ کار کا تقابلی جائزہ اور موازنہ کس طرح کیا جاسکتاہے؟

فرانسیسی پروفیسر نے جواب دیا کہ القاعدہ نے غیرملکیوں کو تربیت دی لیکن القاعدہ نے کبھی بھی اپنے میزبان ملک کے داخلی امور میں مداخلت نہیں کی۔ القاعدہ عالمی جہاد پر یقین رکھتی ہے اور اس نے اپنی خود سے کوئی اسلامی ریاست نہیں بنائی بلکہ اس نے طالبان کی بطور اسلامی ریاست حمایت کی تھی۔ القاعدہ نے طالبان کے مقاصد کے لیے ضرور کام کیا لیکن طالبان نے کبھی القاعدہ کو اجازت نہیں دی کہ وہ ان کے داخلی امور میں مداخلت کریں۔

انھوں نے کہاکہ جہاں تک داعش کا تعلق ہے، اس نے شام اور عراق میں اپنے کے لیے سیاسی میدان بنایا اور اپنے آپ کو اسلامی ریاست متعارف کروایا۔ اسی لئے یورپ سمیت دنیا کے انتہاپسند مسلمانوں نے زیادہ تعداد میں داعش میں شمولیت اختیارکی۔




Recommended For You

Leave a Comment