افراط زر کیا ہے ؟؟

( تحریر، محمد طارق )

عام زبان میں افراط زر کو مہنگائی کہا جاتا ہے ، یعنی ملک ، مارکیٹ میں چھاپے ہوئے نوٹ زیادہ دستیاب ہیں –

کسی بھی ملک کی حکومت اور حکمرانوں کو سب سے زیادہ پریشانی ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے ہوتی ہے ، دنیا میں مہنگائی کی وجہ سے بڑے بڑے طاقت ور ، عوام میں مقبول حکمرانوں کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے ، بڑھتا ہوا افراط زر نہ صرف عوام کی تنخواہ پر اثرڈالتا ہے ، بلکہ عوام کا بینکوں سے لی ہوئی ادھار رقم اور ادھار رقم پر سود شرح پر بھی مثبت ، منفی اثرات مرتب کرتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ملک میں افراط زر کیوں ہوتا ہے ؟ –

کسی ملک کی حکومت کسی بھی وجہ سے ، اپنے اسٹیٹ بنک کے ذریعے مارکیٹ میں پہلے سے موجود نوٹوں کی مقدار سے اور زیادہ کرنسی نوٹ چھاپ کر ملکی بینکوں ، مارکیٹ میں مہیا کرتی ہے ، تو اس وقت مارکیٹ میں زیادہ کرنسی ہونے کی وجہ سے اشیاء کی مانگ میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے ، جو اشیاء یا چیز پہلے 10 روپے کی تھی ، لیکن مارکیٹ میں وقت کی کمی کی وجہ سے مزید اشیاء اسٹورز نہیں پہنچ سکتی، جس سے پہلے سے موجود اشیاء کی مانگ میں اضافہ ہوجائے گا ، جو گاہک 10 روپے سے زیادہ قیمت دے گا وہ یہ اشیاء خرید لے گا، یعنی مہنگائی ہونا شروع ہوگئ۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی معاشی مارکیٹ میں مزدور یونینز کی طاقت بھی افراط زر ( مہنگائی ) پر اثر انداز ہونا شروع ہوگئی ، یعنی مزدور تنخواہ کے ساتھ آجر کی پیداواری شرح منافع سے بھی حصہ لینے لگے ، جس سے آجر کو کم منافع ملنے لگا ، آجر کا منافع میں کم حصہ ، اور مارکیٹ میں شرح سود میں اضافہ کی وجہ سے، آجروں نے نئی سرمایہ کاری کرنا چھوڑ دی ، اس سرمایہ کاری کو پورا کرنے کے لیے حکومتوں نے دوبارہ مارکیٹ میں کرنسی نوٹ فراہم کرنا شروع کر دیے ، مارکیٹ میں زیادہ کرنسی آنے کی وجہ سے ملکی مجموعی قوت خرید میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ، لیکن سرمایہ کاری میں کمی کی وجہ سے مارکیٹ میں اشیاء کی پیداوار کم ہوگئ، مارکیٹ میں اشیاء کی کمی اور قوت خرید بڑھنے سے بازار میں قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا-

کسی ملک میں جب بہت کم لوگ بیروزگار ہوں گے یا بالکل ہی بے روزگاری نہیں ہوگی ، اس وقت ملک کی مجموعی اشیاء طلب میں اضافہ ہوگا ، اس اضافی طلب کو پورا کرنا کے لیے ، ملک کی مجموعی اشیاء رسد کی مقدار میں اضافہ کرنا پڑے گا ، اشیاء رسد میں اضافہ کرنے کے لیے افرادی قوت کی ضرورت پڑیگی ، ملک میں پہلے سے کم بے روزگاری کی وجہ سے ، ملک کے کارخانوں ، کاروبار کو کم افرادی قوت میسر ہوگی ، اس افرادی قوت کی کمی سے مزدور حاصل کرنے کے لیے کارخانوں ، کاروبار کے آجروں کو میسر افرادی قوت کی تنخواہ میں اضافہ کرنا پڑا گا، جس سے ان کو اپنے کارخانے ، کاروبار کے لیے مزدور مل جائیں گے ، جب مزدور کارخانوں ، کاروبار میں کام شروع کریں گے تو تنخواہوں میں اضافے کی وجہ سے کارخانوں ، کاروبار کے اخراجات بڑھنا شروع ہو جائینگے ، ان بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کارخانوں ، کاروبار کے آجروں کو اپنی پیداوار کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑے گا ، جس سے مارکیٹ میں دوسری اشیاء کی بھی قیمتیں بڑھنے شروع ہو جائینگی –

کم بے روزگاری ، بڑھتی ہوئی مہنگائی یا بڑھتا ہوا افراط زر 1970 کی دھائی تک حکومتوں کے لیے ایک پسوڑی بنا رہا ، کہ کس طرح ایک طرف بے روزگاری کم رکھی جائیں ، تو دوسری طرف افراط زر کو بھی کم رکھا جائے ، لیکن ان دونوں کو ایک ہی وقت میں کم رکھنا بہت مشکل کام تھا ، اس لیے حکومتوں کے پالیسی سازوں اور بڑے معیشت دانوں نے ایک کلیہ ایجاد کیا کہ کسی بھی ملک میں افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں 4 فیصد تک لوگ ہمشیہ بے روزگار رہیں –

4 فیصد ہمشیہ بے روزگاری اور کم افراط زر کا کلیہ 1990 کی دھائی میں اپنے مطلوبہ نتائج نہ دے سکا ، کیونکہ اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں بہت زیادہ بے روزگاری ہونے کے ساتھ افراط زر ( مجموعی مہنگائی ) میں بھی بے انتہا اضافہ ہوا-

آج کی ٹیکنالوجی معشیت پر نئے نئے فیکٹرز اثر انداز ہورہے ہیں ، دنیا کے اقتصادی ماہرین ، محققین اس تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں ، کہ کوئی ایسا نیا معاشی نظام ، یا معاشی کلیہ ایجاد کیا جائے ، جس سے ملکوں میں بے روزگاری کم رہے ، مہنگائی کم ہو، اور ساتھ ہی مجموعی قوت خرید میں بھی کمی نہ آئے –

Recommended For You

Leave a Comment