ناروے میں پٹھواری زبان کو فروغ دینے والے لوگ: ’’منڈلی‘‘ کے عنوان سے استفادہ کیاجاتاہے

This slideshow requires JavaScript.

 

خصوصی رپورٹ: سید سبطین شاہ

 کچھ لوگ ایسے ہیں جو کئی دہائیوں کے بعد بھی اپنی مادری زبان اور آبائی وطن و ثقافت کو نہیں بھولتے۔ یہ حقیقت ہے کہ پٹھوارکی میٹھی زبان نارویجن دارالحکومت اوسلومیں بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے۔

پھٹواری زبان پنجابی کی ایک شاخ ہےجو خطہ پٹھواری میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ علاقائی زبانیں پاکستان کا اثاثہ ہیں جن کی بقا کے لیے کوئی خاص کوششیں نہیں کی جارہی ہیں۔ خطہ پٹھوار ہزارہ اور کشمیر کو پنجاب کے دوسرے علاقوں سے ملاتاہے اور اسی طرح پٹھواری زبان بھی ہزارہ اور کشمیر میں بولی جانے والی ہندکو یا پہاڑی زبان کو پنجابی زبان سے مرتبط کرتی ہے۔ خطہ پٹھوار کے کچھ حصے جہاں کہیں خالص اور کہیں مخلوط بولیاں بولی جاتی ہیں، صوبہ خیبرپختونخواہ کے پشتون علاقوں اور کچھ سرائیکی پٹی سے بھی جاملتے ہیں۔  

تاریخی اعتبارسے پٹھواری ایک انڈین آرئین لہجہ ہے جس میں پنجابی اور ہندکو کے الفاظ بکثرت پائے جاتے ہیں اور کچھ الفاظ اس زبان کے مخصوص ہیں جن کی وجہ سے یہ بولی پنجابی اور ہندکو سے جدا ہوکر اپنی الگ پہچان بناتی ہے۔

ناروے میں کچھ لوگوں نے جن کا تعلق خطہ پٹھوار اور گردونواح ہے، نے ایک بیٹھک ’’منڈلی‘‘ بنارکھی ہے۔ لوگ وہاں آتے ہیں اور گپ شب لگاتے ہیں اورچائے کافی پی کر اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں یا پھر دیگرکاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ اس منڈلی میں گذشتہ ہفتے پٹھوار کے جن لوگوں سے ملاقات ہوئی ان میں مرزا محمد انوربیگ، چوہدری مظہرحسین، جاوید اقبال، لیاقت علی، محمد شفیق، چوہدری محمد عجب اور خالد سلیم قابل ذکر ہیں۔  ان کی محبت کی وجہ سے پاکستان کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے  لوگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے ہیں۔ اس دوران جن دیگر لوگوں سے ملاقات ہوئی ان میں عبدالعزیز ملک، حاجی ارشد حسین (فیصل آباد) ، اقبال احمد (میرپور) اور شیخ آفتاب (چنیوٹ) شامل ہیں۔

ان شخصیات کی گفتگو سے اندازہ ہوتاہے کہ زبان لوگوں کو ایک دوسرے جدا نہیں کرتی بلکہ ملانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ یہ لوگوں تک منحصر ہے کہ وہ کس طرح کا کردار اداکرتے ہیں۔ یہ ان کی نیتوں پر ہے کہ وہ لوگوں کو ساتھ ملا کرچلتے ہیں یا نفرتیں پھیلاکردور کردیتے ہیں۔ اس منڈلی میں دیگرزبانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں اور یہ ان میں مضبوط ربط کا ذریعہ ہے۔ یہ سلسلہ گذشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔

Recommended For You

Leave a Comment